01 جون ، 2024
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت 30 مئی کی عدالتی کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔
تحریری حکم نامے میں قرا ر دیا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست دی گئی، درخواست میں ایک جواز یہ پیش کیا گیاکہ دیگر کیسز کے مقابلے میں اس کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست نشر نہ کرنا امتیازی سلوک ہے۔
تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ کے پی حکومت کا جواز حقائق سے منافی ہے کیونکہ بہت کم مقدمات کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی، کچھ مقدمات کی براہ راست نشریات دکھائی گئی لیکن بعد میں انصاف کی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نشریات روک دی گئی، خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست میں کوئی قانونی نقطہ بیان نہیں کیا گیا ہے، یہ نہیں بتایا گیا خیبر پختونخوا حکومت کے بنیادی حقوق سے کیسے انحراف کیا جا رہا ہے؟ لہٰذا براہِ راست نشریات دکھانے کی خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
حکم میں مزید کہا گیا کہ 18 ستمبر 2023 کی فل کورٹ میٹنگ میں عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کے لیے پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا، عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کے لیے میکانزم طے کرنے کے لیے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی، ججز کمیٹی نے 16 اکتوبر 2023 کی رپورٹ میں براہ راست اسٹریمنگ کے لیے قواعد بنانے کی تجویز دی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل کمیٹی تا حال لائیو اسٹریمنگ دکھانے کے قواعد طے نہ کر سکی، اب تک 40 مقدمات کی سماعت عدالتی کارروائی کو براہ راست دکھایا گیا۔
تحریری حکم کے مطابق لائیو عدالتی کارروائی کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، بانی پی ٹی آئی نیب ترمیم کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، نیب ترامیم کیس میں بانی پی ٹی آئی نے خواجہ حارث کی خدمات بطور وکیل حاصل کیں، بانی پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں کے پی کے حکومت کو فریق نہیں بنایا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 15 ستمبر 2023 کے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر ہوئیں، انٹرا کورٹ اپیلوں پر بانی پی ٹی آئی کو جیل میں نوٹس بھیجا گیا، بانی پی ٹی آئی کی نمائندگی کی درخواست پر انہیں ویڈیو لنک کی سہولت کی اجازت دی گئی، بانی پی ٹی آئی نے وکلا سے ملاقات کی اجازت مانگی جو عدالت کی جانب سے دے دی گئی، اگرچہ بانی پی ٹی آئی کی نمائندگی اب وکلا کریں گے لیکن اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی کو ویڈیو لنک کی سہولت موجود رہے گی، عوام نے نیب ترامیم کے کیس کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی، جب ایک سیاسی جماعت کا سربراہ کہے اس کو سنا جائے تو اس بات کو امکان ہوتا ہے، عدالتی کارروائی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، ان وجوہات پر عدالت لائیو اسٹریمنگ کی درخواست کو مسترد کرتی ہے۔
تحریری حکم میں قرار دیا گیا کہ اس مقدمے میں لائیو اسٹریمنگ کی درخواست ناقابل سماعت اور میرٹ پر نہیں ہے، نیب ترامیم مرکزی کیس کی 53 سماعتیں ہوئی، 53سماعتوں میں بانی پی ٹی آئی ایک مرتبہ بھی سپریم کورٹ پیش نہیں ہوئے، 53 عدالتی سماعتوں میں بانی پی ٹی آئی نے عدالتی کارروائی کی براہ راست نشریات کی درخواست کی نہیں کی، نہ ہی کے پی حکومت نے کبھی عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کی درخواست کی، کے پی حکومت اس کیس میں فریق ہی نہیں ہے۔
تحریری حکم کے مطابق سیاسی جماعت کا وہ سربراہ جو وکیل بھی نہ ہو اگر وہ کہے اسے سنا جائے تو اس سے یہ قوی امکان پیدا ہوتا ہے کہ عدالتی کارروائی سیاسی مقاصد اور پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال ہو سکتی ہے، ہمارے خدشات اس وقت درست ثابت ہوئے جب بانی پی ٹی آئی نے 30 مئی کو عام انتخابات کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور دیگر ایسے مقدمات کا ذکر کیا جو اس وقت ہمارے سامنے سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں تھے، وہ فریق جو ہمارے سامنے ہی نہیں ان کے بنیادی حقوق متاثر ہونے کا امکان ہے۔