Time 02 جون ، 2024
صحت و سائنس

ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بڑھتا ہے، تحقیق

ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بڑھتا ہے، تحقیق
ایک طبی تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فائل فوٹو

دنیا کا درجہ حرارت بڑھنے کے باعث ہیٹ ویوز کے دورانیے اور شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

اب ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع تحقیق میں 1993 سے 2017 کے دوران امریکا میں بچوں کو جنم دینے والی 5 کروڑ 30 لاکھ خواتین کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر ایک ہیٹ ویو کا دورانیہ مسلسل 4 دن تک برقرار رہتا ہے تو بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا امکان ایک سے 2 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ اوسط درجہ حرارت میں ہر ایک ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ ایک فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ 2023 کے موسم گرما کے دوران گرمی کے نئے ریکارڈ بنے اور اس سال بھی نئے ریکارڈز بننے کی توقع ہے۔

محققین کے مطابق ہم 2024 کے موسم گرما کے شدید گرم رہنے کی پیشگوئی کر رہے ہیں اور ایسا موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہو رہا ہے اور مستقبل میں ہمیں زیادہ ہیٹ ویوز کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافہ نومولود بچوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے کیونکہ قبل از وقت پیدائش سے طبی مسائل کا خطرہ بڑھتا ہے۔

قبل از وقت پیدائش سے مراد یہ ہے کہ بچے کی پیدائش حمل ٹھہرنے کے بعد 39 ہفتوں سے قبل ہو جائے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی حاملہ خواتین کے ہاں بچوں کی قبل از وقت پیدائش کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ انہیں ائیر کنڈیشنر اور بہترین طبی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔

خیال رہے کہ کچھ دن قبل پاکستان کی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

بیان کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے حالیہ برسوں میں پاکستان میں مہلک ہیٹ ویوز کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

وزارت کے میڈیا ترجمان محمد سلیم شیخ نے خبردار کیا کہ ہیٹ ویو سے حاملہ خواتین کو زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے،کمزور مدافعتی نظام رکھنے کی وجہ سے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کیلئے صورتحال زیادہ پریشان کن اور سنگین ہو سکتی ہے۔

مزید خبریں :