12 جولائی ، 2024
اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو سیاسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنے گئی تھی لیکن عدالت نے پی ٹی آئی کو دے دیا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، ہمارے پاس اب بھی 209 اراکین کی اکثریت ہے۔
ان کا کہنا تھا آج بھی وہ سینیٹرز جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلئیر ہوئے وہ آزاد ہی درج ہیں، آزاد اراکین نے بغیر رغبت اور اپنی منشاء سے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں، آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سماعت میں سامنے آیا کہ سنی اتحاد کونسل میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتی تو شاید یہ راستہ بنایا گیا، سپریم کورٹ میں کبھی 80 لوگ آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں اور سنی اتحاد میں شامل کیوں ہونا پڑا، ان 80 اراکین نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں اور وہی ان کی شناخت ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی تشریح عدالت کا اختیار تو ہے مگر اب بات آئینی تشریح سے آگے نکل گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 51 کو دوبارہ لکھا گیا ہے، بطور قانون کے طالب علم عدالت کے وقار کو مدنظر رکھوں گا، وفاقی حکومت اس پر اپیل کرے گی یا نہیں یہ فیصلہ کابینہ کرے گی، بطور وزیر قانون نظر ثانی پر اپنی رائے محفوظ رکھوں گا، اتحادی جماعتوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ نظر ثانی دائر کرنی ہے یا نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا اب تک سمجھ نہیں پایا کہ سپریم کورٹ نے کون سا دائرہ اختیار استعمال کیا، عدالت اس طرح سے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال تو نہیں کر سکتی، بادی النظر میں ابھی تک کے فیصلے میں وضاحت نہیں ہے، اس فیصلے میں آئینی اور قانونی خامیاں ہیں کہ یہ زیر بحث رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئینی معاملے کو سیاست کے ساتھ مکس نہیں کروں گا، حکومت کی بھرپور اکثریت نے بجٹ بھی منظور کیا، حکومتی اتحاد نے کچھ اصلاحات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ججز کے احتساب سمیت بہت سی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، ایک جج ایک دن میں 35، 40 کیسز کا فیصلہ کرے، دوسرا نا کرے تو کیا یہ مس کنڈکٹ نہیں؟ جج کا فرض ہے کہ عام آدمی جس کے لیے نظام کھڑا کیا گیا ہے اس پر فوکس کریں، سارا رجحان سیاسی جماعتوں کی طرف ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا آج کا فیصلہ سیاسی فیصلہ ہے، جو مباحثے ٹی وی پر چل رہے ہیں انکے مطابق فیصلے ہو رہے ہیں، فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہونا چاہئیں، جو مانگا ہی نا گیا ہو عدالت وہ فیصلہ کرے تو یہ میرے لیے تکلیف دہ ہے، عدالت سے ریلیف سنی اتحاد کونسل مانگنےگئی تھی لیکن پی ٹی آئی کو دے دیا گیا، کیس میں پی ٹی آئی نہ درخواست گزار تھی نہ انھوں نے ریلیف مانگا تھا۔
ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ فیصلے کے مندرجات دیکھ رہے ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قانون موجود ہے، نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہیے تھیں، کیس میں تو پی ٹی آئی فریق تھی ہی نہیں، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے جیتنے کے بعد کسی فورم سے رجوع نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل کے منشور کے مطابق انھیں اقلیتی نشستیں نہیں ملنی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے کبھی نہیں کہا کہ انکی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جائیں، سنی اتحاد کونسل غیر مسلم کو اپنا رکن تسلیم نہیں کرتی، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہئیں، عدالتی فیصلے کے دائرہ اختیار کی کوئی مثال نہیں مل رہی، عدالتی فیصلے کے باعث ابہام اور سوالات نے جنم لیا ہے، پی ٹی آئی کو وہ ریلیف ملا ہے جوانھوں مانگا ہی نہیں۔