Time 12 جولائی ، 2024
سائنس و ٹیکنالوجی

یورپی یونین کا ایکس (ٹوئٹر) پر مختلف قوانین کی خلاف ورزی کا الزام

یورپی یونین کا ایکس (ٹوئٹر) پر مختلف قوانین کی خلاف ورزی کا الزام
یورپی کمیشن نے اس حوالے سے ایک بیان جاری کیا ہے / رائٹرز فوٹو

ایلون مسک کے زیر ملکیت سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) پر یورپی یونین کی جانب سے آن لائن مواد سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔

یورپی کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایکس کے ویریفائیڈ بلیو ٹک اکاؤنٹس کو صارفین کو دھوکا دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یورپی ریگولیٹرز کی جانب سے بتایا گیا کہ صارفین کو یہ دھوکا ہو سکتا ہے کہ ایکس پر بلیو ٹک والا اکاؤنٹ مستند ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد پیسے دیکر اپنا اکاؤنٹ ویریفائیڈ کراسکتا ہے۔

بیان کے مطابق ایسے شواہد دریافت ہوئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کچھ افراد کی جانب سے اس سسٹم کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

یورپی کمیشن نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایکس میں اشتہارات کے حوالے سے شفافیت کی کمی ہے جبکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے یورپی قوانین کے تحت درکار ڈیٹا فراہم نہیں کیا۔

اگر یہ الزامات درست ثابت ہو جاتے ہیں تو یورپی یونین کی جانب سے ایکس پر عالمی سالانہ آمدنی کے 6 فیصد حصے کے برابر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے جبکہ یورپ میں اسے مختلف تبدیلیوں کے لیے بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔

ایکس کی جانب سے فی الحال اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

یورپی ریگولیٹرز کی جانب سے ڈیجیٹی سروسز ایکٹ (ڈی ایس اے) کے تحت 7 ماہ سے مختلف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کی جا رہی تھی تاکہ غیر قانونی مواد کی روک تھام ہوسکے اور عوام کا تحفظ ہوسکے۔

ڈی ایس اے کے تحت ٹک ٹاک، میٹا پلیٹ فارمز، ایپل اور دیگر کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے۔

یورپی کمیشن نے بتایا کہ ایکس میں جس طرح بلیو ٹک ویریفائیڈ اکاؤنٹس کے انٹرفیس کو آپریٹ کیا جا رہا ہے، وہ انڈسٹری کی روایات کے مطابق نہیں اور اس سے صارفین کو فراڈ کا شکار بنایا جاسکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ چونکہ ہر فرد ماہانہ فیس ادا کرکے اپنا اکاؤنٹ ویریفائیڈ کرا سکتا ہے تو اس سے صارفین کی اکاؤنٹس کے مستند ہونے سے متعلق جاننے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ ماضی میں بلیو ٹک کو اکاؤنٹس کے مستند ہونے کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

یورپی کمیشن کی جانب سے ایکس کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ ابھی جاری رکھا جائے گا اور آئندہ چند ماہ میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

مزید خبریں :