27 فروری ، 2012
راولپنڈی … بغاوت کے ملزم پاک فوج کے بریگیڈیئر علی خان پر الزام ہے کہ وہ خلافت قائم کرنے کیلئے جی ایچ کیو میں کورکمانڈر کانفرنس پر پاک فضائیہ کے پائلٹ کی مدد سے ایف 16 طیارے کے ذریعے حملہ اور صدر ،وزیراعظم کو بھی قتل کرنا چاہتے تھے، اس مقصد کیلئے وہ 2 فلسطینیوں سے بھی رابطے میں رہے۔ راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے بریگیڈیئر علی خان کے وکیل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کے موٴکل بریگیڈیئر علی خان پر الزام لگایا گیا کہ وہ 300 سے400 افراد کے ذریعے جی ایچ کیو پر حملہ کرکے قبضہ کرنا چاہتے تھے تاہم یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ انہوں نے سابق صدر پرویزمشرف اور موجودہ ملٹری قیادت کے سامنے فاٹا میں جاری جنگ کے حوالے سے سوال اٹھایا تھا کہ یہ جنگ کیوں لڑی جارہی ہے جو پاکستان کی نہیں اور اسی بات پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ بریگیڈیئرعلی خان کو ان کی خدمات پر ستارہ امتیاز دیا گیا، 11 اپریل 2011ء کو ملٹری سیکریٹری برانچ سے جاری حکم نامے کے بعد 10 جولائی 2011ء کو ان کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، لیکن اس سے پہلے ہی ان کی ریٹائرمنٹ روک لی گئی اور5 مئی کو گرفتار کرنے کے بعد اب سیالکوٹ میں کورٹ مارشل کیا جارہا ہے۔ انعام الرحیم نے کہا کہ ان کے موٴکل بریگیڈیئر علی خان کے ساتھ پاک فوج کے 4 میجرز کو بھی حراست میں لیا گیا ہے جن میں میجرجواد بصیر اور میجر سہیل اکبر خلیل شامل ہیں جبکہ 2 سویلین رضوان اور عبدالقادر یا وہ پائلٹ جس نے جی ایچ کیو، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاوٴس پر حملہ کرنا تھا وہ گرفتار نہیں ہوسکے۔ انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے فوج کی طرف سے بریگیڈیئرعلی خان کے ٹرائل کو غیرقانونی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کر دی ہے، توقع ہے کہ انصاف ملے گا۔