Time 18 جولائی ، 2024
سائنس و ٹیکنالوجی

انتہائی زہریلے کوبرا سانپ کے متاثرہ افراد کا مؤثر اور سستا ترین علاج دریافت

انتہائی زہریلے کوبرا سانپ کے متاثرہ افراد کا مؤثر اور سستا ترین علاج دریافت
ایک اندازے کے مطابق ہر سال سانپ کے کاٹنے سے تقریباً ایک لاکھ 38 ہزار افراد انتقال کر جاتے ہیں۔ فوٹو فائل

کوبرا کو انتہائی خطرناک زہریلا سانپ تصور کیا جاتا ہے اور اس کے کاٹنے سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور اکثر علاج بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔

اب سائنسدانوں نے ایک ایسی دوا دریافت کی ہے جو ابھی دنیا بھر میں خون پتلا کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، مگر یہ کوبرا سانپ کے زہر کو ختم کرنے کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے دور افتادہ یا کم آمدنی والے ممالک میں سانپ کے کاٹنے سے تقریباً ایک لاکھ 38 ہزار افراد انتقال کر جاتے ہیں اور 4 لاکھ سے زائد افراد کے سانپ سے کاٹنے سے متاثرہ حصے کے خلیات مر جاتے ہیں جس سے جسم کا وہ متاثرہ حصہ کالا ہو جاتا ہے۔

کوبرا سانپ کے کاٹنے کے زیادہ تر واقعات افریقا اور بھارت میں رپورٹ ہوتے ہیں تاہم جگر اور پھیپھڑوں میں پایا جانے والا ہیپرین نامی مرکب اس زہر کو کم کرنے میں انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔

آسٹریلیا، کینیڈا، کوسٹا ریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے خون کو پتلا کرنے والی ایک عام سی دوا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر ایسا سستا ترین تریاق (اینٹی ڈاٹ) تیار کیا ہے جو کوبرا سانپ کے زہر کو ختم کر سکتا ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ تریاق تمام سانپوں کا زہر کم کرنے میں معاون نہیں ہے لیکن یہ اس وقت دستیاب دیگر ادویات کے مقابلے میں انتہائی سستی دوا ثابت ہو سکتی ہے، اس وقت دستیاب زیادہ تر ادویات ایک ہی قسم کے سانپ کے زہر کے لیے مفید ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نئی تیار شدہ دوا کا چوہوں پر کامیابی سے تجربہ کیا جا چکا ہے اور اب اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا۔

یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے سینئر محقق پروفیسر گریگ نیلے کا کہنا ہے کہ ہماری دریافت سے کوبرا سانپ کے کاٹنے کے باعث بننے والے زخموں کو فوری طور پر بھرنے اور اس کے زہر کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

پروفیسر گریگ نیلے کے مطابق زہر اور ٹاکسنز کی طرح کے بائیولوجیکل ایجنٹس کو انسانوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ہماری تحقیق نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انسان کے اندر وہ کون سے عوامل ہوتے ہیں جو زہر کے ساتھ مل کر موت یا خلیوں کے مردہ ہونے کا سبب بنتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم تحقیق کے دوران یہ دیکھ رہے تھے کہ وہ کون سے طریقے ہیں جن کے ذریعے ہم مختلف اقسام کے سانپوں کا زہر لیکر اسے انسانی خلیات کے ساتھ ملا سکیں، سائنسی اعتبار سے سب سے اچھی چیز یہ ہوئی کہ ہم نے 4 یا 5 ایسے مختلف ذریعوں کی نشاندہی کر لی جس کے ذریعے سے زہر کو انسانی خلیوں سے ملایا جا سکتا ہے جس کی مدد سے ہم ایسا عام تریاق تیار کر سکتے ہیں جو زہریلی اقسام کے جانوروں کی بڑی تعداد کے اثرات کو روک سکتا ہے۔

پروفیسر گریگ کا کہنا ہے ہم پر امید ہیں کہ ہم نے جو تریاق دریافت کیا ہے اس سے بین الاقوامی سطح پر سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اس تحقیق کے مرکزی نمائندے اور یونیورسٹی آف سڈنی کے پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ٹین ڈو نے اس دریافت کو مستقبل کے لیے بڑی پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہیپرین ایک سستی، باآسانی میسر اور عالمی ادارہ صحت کی ضروری ادویات کی فہرست میں شامل ہے۔

ٹین ڈو کا مزید کہنا تھا کہ انسانوں پر اس دوا کے کامیاب تجربے کے بعد اس دوا کو کوبرا سانپ کے زہر سے بچاؤ والی مؤثر، سستی اور آسانی سے میسر دوا کے طور پر استعمال میں لایا جائے گا۔

مزید خبریں :