Time 20 جولائی ، 2024
پاکستان

ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین، قانون پر عمل پیرا ہونا چاہیے، چیف جسٹس کا ججز کمیٹی اجلاس پر اختلافی نوٹ

ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین، قانون پر عمل پیرا ہونا چاہیے، چیف جسٹس کا ججز کمیٹی اجلاس پر اختلافی نوٹ
میرے دو ساتھی ججز نے نظرثانی نہ سننے کی دو وجوہات بتائیں، ساتھی ججز نے رائے دی تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے، تفصیلی فیصلہ تو ان 8 ججز کوہی تحریر کرنا ہے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ— فوٹو:فائل

سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے دو ایک کی اکثریت سے نظرثانی درخواستیں گرمیوں کی تعطیلات کے بعد مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے 18 جولائی کو ہونے والے 17 ویں اجلاس کے منٹس جاری کر دیے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی صرف وہی 13 ججز سن سکتے ہیں جنہوں نے مرکزی کیس سنا، کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی نہیں جاری ہوا۔

دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ نظرثانی درخواستوں پر سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد ہوگی۔

جسٹس منیب اختر نے رائے دی رولز میں عدالتی چھٹیوں کا اختیار موجود ہے، نئے عدالتی سال کا آغاز اب ستمبر کے دوسرے ہفتے سے ہوگا، عدالتی چھٹیوں کا اعلان ہو جائے تو چھٹیاں منسوخ کرنے کی رولز میں کوئی گنجائش نہیں۔

نظرثانی سننے کے بجائے چھٹیاں گزارنے کی جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اخترکی رائے پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا اور اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ہمارا کام آئین و قانون پر عمل کرنا ہے، ہم ججز نے آئین، قانون کے تحت حلف اٹھارکھا ہے رولز کے تحت نہیں، آئین و قانون کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ذاتی ترجیحات کے بجائے آئین، قانون کےمطابق عمل پیرا ہونا چاہیے، ایک ہفتے میں جسٹس عائشہ ملک بیرون ملک سے واپس پاکستان آسکتی ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز کا اختلافی نوٹ میں کہناتھاکہ میرے دو ساتھی ججز نے نظرثانی نہ سننے کی دو وجوہات بتائیں، ساتھی ججز نے رائے دی تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے، تفصیلی فیصلہ تو ان 8 ججز کوہی تحریر کرنا ہے، عدالت کے اقدام سے کسی کے حقوق سلب نہیں کیے جا سکتے اور تفصیلی فیصلے کے انتظار تک نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے سے آئین و قانون بے معنی ہو جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ آرٹیکل 63 اے نظرثانی 10 دنوں میں سماعت کیلئےمقررکی جائے، آرٹیکل 63 اے نظرثانی کیلئے دونوں ججز دستیاب ہیں، 63 اے کیس پر سماعت کرنے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال ریٹائر ہو گئے اور  جسٹس ریٹائرڈ اعجاز الاحسن مستعفی ہو گئے۔

ان کا کہنا تھاکہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل دستیاب ہیں، آرٹیکل 63 اے نظرثانی کے بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو شامل کیا جائے۔

چیف جسٹس نے مزید لکھاکہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت معاملہ جلدی کا ہو تو نظرثانی 15 دنوں میں سماعت کیلئے مقرر ہونی چاہیے، سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے 15 دنوں میں نظرثانی سماعت کیلئے مقرر نہ ہوئی تو کیس غیر مؤثر ہو جائے گا۔


مزید خبریں :