30 جولائی ، 2024
کراچی سے اغوا ہو کر چند روز بعد لاہور میں اپنے اہلخانہ سے ملنے والے صنعتکار ذوالفقار احمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سندھ ہائیکورٹ کی جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے ان حالات میں تو زیادہ بہتر ہے کہ فورسز نہ ہوتیں، فورسز پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
سندھ ہائی کورٹ میں صنعتکار ذوالفقار احمد کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران اسسٹنٹ پراسکیوٹر جنرل سندھ نے بتایا کہ مسنگ پرسن کا کیس ہے اور وہ واپس آگئے ہیں، جس پر جسٹس کوثر سلطانہ نے استفسار کیا کیا یہ اغواء برائے تاوان کا کیس تھا؟
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ کراچی سے اٹھایا گیا اور لاہور سے ملے ہیں، جس پر جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے کہ اسی طرح سے کاروباری لوگ یہاں سےجارہے ہیں، شاید ہم نے غیرملکی مشروبات پینا چھوڑ دی ہے، اگر کرنا تھا تو رمضان میں کرتے۔
عدالت نے تفتیشی افسر نے سوال کہا کہ اربوں روپے کا بجٹ ہے، رینجرز اور پولیس کیا کر رہی ہے؟ جس پر سرکاری وکیل کا کہنا تھا رینجرز اس کیس میں فریق نہیں ہے۔
سندھ ہائیکورٹ نے پوچھا کہ آپ نے اب تک کیا تفتیش کی ہے؟ جس پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ درخواست گزار کی جانب سے تفتیش کے لیےکوئی نہیں آیا کسی نے کوئی بیان نہیں دیا۔
وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا ذوالفقار احمد عدالت میں خود پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرائیں گے، فی الحال ذوالفقاراحمد اس حالت میں نہیں کہ وہ بیان دے سکیں، پولیس مقدمہ درج کرنے کے لیے مختلف بہانہ بناتی رہی ہے، بروقت مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔
جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے بچے ملک چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں، ایک موبائل کے لیے ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے، والدین پریشان رہتے ہیں کوئی ایک موبائل کے لیے ان کے بچے کی جان نہ لے، لوگوں نے نجی سکیورٹی گارڈز رکھ کر اپنے بینک اکاؤنٹس خالی کر لیے ہیں۔
عدالت نے پولیس نے اسفتسار کیا وہ لوگ زیادہ مضبوط ہیں یا آپ لوگ؟ اگر اب ذوالفقار احمد یا ان کے دفتر کا بندہ اغوا ہوا تو ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج ہو گا۔
جسٹس کوثر سلطانہ نے استفسار کیا تو کیا ہم درخواست کو نمٹادیں؟ جس پر وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا ایک تاریخ دے دیں، ذوالفقار احمد پیش ہوں گے، فاضل خاتون جج نے ریمارکس دیے کہ درخواست کا مقصد پورا ہوچکا ہے، آپ تحقیقات میں شامل ہوں۔