06 اگست ، 2024
امریکا کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ گوگل کی جانب سے انٹرنیٹ سرچنگ میں اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے غیرقانونی اقدامات کیے گئے۔
امریکی فیڈرل جج کی جانب سے یہ فیصلہ گوگل کی اجارہ داری کے خلاف دائر مقدمے میں سنایا گیا۔
کولمبیا ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج امیت مہتا نے کہا کہ تمام گواہوں کے بیانات اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد عدالت اس فیصلے پر پہنچی ہے کہ گوگل ایک اجارہ دار ادارہ ہے اور یہ کمپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اقدامات کرتی ہے جو کہ شرمین ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔
یہ امریکی ریاستوں کے خلاف جاری عدالتی جنگ میں گوگل کی بہت بڑی شکست ہے کیونکہ اس کمپنی نے اربوں ڈالرز کے معاہدے کرکے اپنے سرچ انجن کو اسمارٹ فونز اور ویب براؤزر پر ڈیفالٹ سرچ انجن بنایا ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت میں امریکی حکومت کی جانب سے گوگل کے خلاف اینٹی ٹرسٹ مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
اب امریکی جج نے کہا کہ گوگل کو اپنے غیر مسابقتی رویے کو روکنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ گوگل کی جانب سے ایپل اور دیگر موبائل کمپنیوں سے کیے جانے والے خصوصی معاہدے مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گوگل کی جانب سے آن لائن اشتہارات کے لیے زیادہ فیس لی جاتی ہے جس سے اس کی آن لائن سرچ میں اجارہ داری کی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔
ان معاہدوں کے باعث لوگ جب بھی انٹرنیٹ پر کسی چیز کے بارے میں تفصیلات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو گوگل ہی ان کے لیے آسان ترین ذریعہ ثابت ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں گوگل کے آن لائن اشتہارات کا بزنس بڑھتا ہے۔
اگرچہ امریکی عدالت نے سرچ اشتہارات میں گوگل کی اجارہ داری کے شواہد دریافت نہیں کیے مگر فیصلے سے کمپنی پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔
اسے گزشتہ 2 دہائیوں میں امریکی حکومت کی جانب سے دائر سب سے بڑا اینٹی ٹرسٹ مقدمہ قرار دیا گیا تھا۔
امریکی اٹارنی جنرل Merrick Garland نے کہا کہ گوگل کے خلاف کامیابی امریکی عوام کی تاریخی فتح ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بھی کمپنی قانون سے بالاتر نہیں۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں بھی اسے امریکی عوام کی فتح قرار دیا گیا۔
گوگل کی جانب سے اس حوالے سے ابھی کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔
خیال رہے کہ 2023 میں امریکی حکومت کی جانب سے گوگل کے خلاف ایک الگ مقدمہ اشتہاری بزنس کے حوالے سے دائر کیا گیا تھا جس کی سماعت ستمبر میں شروع ہونے کا امکان ہے۔
اس سے قبل دسمبر 2023 میں ایک امریکی عدالت نے قرار دیا تھا کہ گوگل نے ایپ اسٹور پر غیر قانونی اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے، البتہ ابھی اس مقدمے پر حتمی فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج کے فیصلے کے بعد توقع ہے کہ عدالت کی جانب سے الگ سماعت کرکے تعین کیا جائے گا کہ گوگل کو کیا سزا سنائی جاسکتی ہے۔
کمپنی کی جانب سے فیصلے کے خلاف اپیل کیے جانے کا امکان ہے تو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں کئی ماہ یا سال لگ سکتے ہیں۔
امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت 2023 سے کی جا رہی تھی جس کے دوران گوگل، مائیکرو سافٹ، ایپل اور دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے عہدیداران نے بیانات ریکارڈ کرائے تھے۔
مقدمے کی زیادہ تر کارروائی بند دروازوں کے پیچھے کی گئی تاکہ گوگل کے بزنس سے متعلق حساس تفصیلات عوام کے سامنے نہ آسکے۔