Time 06 اگست ، 2024
دنیا

وہ وجوہات جن کے باعث حسینہ واجد کا ساڑھے 15 سالہ دور اقتدار ختم ہوا

وہ وجوہات جن کے باعث حسینہ واجد کا ساڑھے 15 سالہ دور اقتدار ختم ہوا
شیخ حسینہ سنگل پارٹی اقتدار کے بیانیے پر قائم تھی مگر طلبہ کے ساتھ ساتھ مغرب کو دشمن بنا کر وہ آخری مرحلے پر تقریباً تنہا ہو چکی تھیں— فوٹو:فائل

بنگلا دیش پر ساڑھے 15 سال حکومت کرنے کے بعد شیخ حسینہ کو 'آمر' بن کر رخصت ہونا پڑا۔ 

طالب علموں اور عوامی مظاہروں کے دوران ان کی حکومت کے خاتمے کی ایک وجہ ضد، تکبر اور حد سے زیادہ اعتماد کو دیکھا جا رہا ہے۔

شیخ حسینہ سنگل پارٹی اقتدار کے بیانیے پر قائم تھی مگر طلبہ کے ساتھ ساتھ مغرب کو دشمن بنا کر وہ آخری مرحلے پر تقریباً تنہا ہو چکی تھیں۔ شیخ حسینہ کو عوامی تحریک کا سامنا کرتے ہوئے ملک سے اقتدار چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ شیخ حسینہ کا استعفیٰ اور ملک چھوڑنا گزشتہ روز یعنی پیر کو چند گھنٹوں کے اندر اندر ہوا۔

عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ نے پیر کی سہ پہر سے پہلے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

بنگلادیشی اخبار پروتھومالو نے کئی حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ استعفیٰ دینے سے قبل دوپہر میں قوم سے خطاب کرنا چاہتی تھیں مگر انہیں وہ موقع اور وقت نہیں دیا گیا۔ شیخ حسینہ دوپہر ڈھائی بجے کے قریب ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں ہندوستان فرار ہو گئیں، اس موقع پر ان کی چھوٹی بہن شیخ ریحانہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔

مضبوط پوزیشن سے استعفے تک

بنگلا دیشی اخبار کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ اصلاحات کے مطالبے کے لیے 36 روز قبل شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک حکومت گرانے کی تحریک میں تبدیل ہونے کے باوجود بھی شیخ حسینہ کی حکومت اپنے مؤقف کو مضبوط مانتی رہی۔ اگرچہ گزشتہ اتوار کو بھی عوامی لیگ، چھاتر لیگ، جوبو لیگ اور دیگر  حکمراں اتحاد سے وابستہ تنظیموں نے اپنی طاقت دکھا کر طلبہ تحریک کو روکنے کی کوشش کی لیکن اس کے نتیجے میں ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں تقریباً 100 افراد کی جانیں گئیں۔

اس صورتحال میں بھی شیخ حسینہ کی حکومت زور و زبردستی اور جبر کی بات کرتی رہی۔

شیخ حسینہ نے اتوار کی شام سے رات دیر تک اپنی حکومت کے قریبی وزرا اور عہدیداروں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ ان کے قریبی کئی رہنماؤں نے بتایا ہے کہ اتوار کو حکومت پر دباؤ بڑھتا رہا لیکن وہ سمجھتے رہے کہ حالات ان کے قابو میں ہوں گے لیکن پیر کی صبح انہیں احساس ہوا کہ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے اور پھر شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

اس صورتحال کی وجہ؟

جب طلبہ پرامن احتجاج کر رہے تھے تو شیخ حسینہ نے 14 جولائی کو ایک پریس کانفرنس میں طلبہ کے منطقی مطالبات کو نظر انداز کر دیا اور انہیں ’رضاکار‘ کہہ کر مخاطب کیا۔

اخبار کے مطابق اس سے شیخ حسینہ کی ضد اور تکبر کا پتہ چلتا ہے، اس رویے پر طلبہ ناراض ہوئے اور تحریک زور پکڑ گئی۔ 

اس تحریک کو دبانے کے لیے سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے استعمال کی وجہ سے گزشتہ 17 جولائی سے چند دنوں میں ملک بھر میں دو سو سے زائد جانیں چلی گئیں۔

فوج کے ذریعے کرفیو نافذ کیا گیا تاہم طلبہ نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایک مرحلہ وار تحریک شروع کردی۔

عوامی لیگ کی تنہائی

شیخ حسینہ نے اپنی طویل حکمرانی میں سب کو ناراض کر دیا۔ ان کی حکومت کی مختلف سطحوں پر بدعنوانی، منی لانڈرنگ اور معاشی جمود نے لوگوں میں غصہ پیدا کیا اور سیاسی نقطہ نظر سے عوامی لیگ کی قیادت میں 14 جماعتی اتحاد سے باہر باقی تمام جماعتیں حکومت مخالف پوزیشن پر چلی گئیں۔

نتیجتاً شیخ حسینہ سیاسی طور پر تنہا ہو گئیں اور یہ طلبہ کی تحریک میں بھی واضح ہوگیا۔

دوسری طرف جغرافیائی سیاست میں شیخ حسینہ کی حکومت کا انحصار بھارت پر تھا اور وہ مسلسل تین متنازع انتخابات میں تو حکومت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔ اگرچہ شیخ حسینہ واجد کی کی حکومت چین کے ساتھ بھی تعلقات برقرار رکھے ہوئے تھی مگر گزشتہ جولائی میں شیخ حسینہ نے دو دن کے لیے چین کا دورہ کیا تاہم دورے کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔

دوسری جانب ان کی حکومت کے امریکا کے ساتھ تعلقات کافی عرصے سے کشیدہ تھے۔ مختلف اوقات میں شیخ حسینہ اور ان کے رہنماؤں نے امریکا پر تنقید کی۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ بھی جنوری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے دوران بڑھ گیا۔

تاہم شیخ حسینہ اور عوامی لیگ نے طلبہ تحریک کے خلاف اقدامات اور ان کی بات نہ مان کر عوام اور طلبہ کو اپنا مخالف بنا دیا۔

اب شیخ حسینہ ملک سے فرار ہو چکی ہیں۔ عوامی لیگ کے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ نے ملک سے بھاگ کر اپنی سیاسی کامیابیوں کو تہس نہس کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بنگلا دیش میں عوامی لیگ کے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

مزید خبریں :