07 اگست ، 2024
طلبہ کے احتجاج کے بعد مستعفی ہوکر بھارت فرار ہونے والی بنگلادیشی وزیراعظم حسینہ واجد برطانیہ میں سیاسی پناہ کی خواہش مند ہیں جہاں ان کی انتہائی قریبی عزیزہ حکومتی پارٹی کی اہم ممبر اور برطانوی کابینہ کی رکن ہیں۔
خیال رہےکہ پیر کے روز حسینہ واجد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوکر اپنی بہن ریحانہ کے ساتھ فوجی ہیلی کاپٹر میں بھارت روانہ ہوئی تھیں جس کے بعد سے وہ بھارت میں ہی قیام پذیر ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق حسینہ واجد برطانیہ کی سیاسی پناہ کی خواہش مند ہیں اور برطانیہ میں سیاسی پناہ ملنے تک شیخ حسینہ واجد کے بھارت میں قیام کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ بھی کیا ہےکہ امریکا نے شیخ حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کردیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق حسینہ واجد سیاسی پناہ کی درخواست پر برطانیہ کے جواب کی منتظر ہیں اور برطانیہ کی جانب سے سیاسی پناہ پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا اسی وجہ سے انہیں نئی دہلی میں اپنا قیام بڑھانا پڑ رہا ہے۔
خیال رہےکہ شیخ حسینہ اپنی چھوٹی بہن ریحانہ کے ساتھ ہیں جو برطانوی شہریت رکھتی ہیں اور ان کی بیٹی ٹیولپ صدیق برطانوی حکمران جماعت لیبر پارٹی کی جانب سے برطانوی پارلیمنٹ کی منتخب رکن اور اکنامک اور سٹی منسٹر ہیں۔
سگی بھانجی کے برطانوی کابینہ میں ہونے کے باوجود حسینہ واجد کو برطانیہ کی جانب سے سرد مہری کا سامنا ہے جس کے بعد بھارتی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہےکہ حسینہ واجد سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات میں بھی پناہ لینے پر غورکر رہی ہیں۔
خیال رہےکہ برطانیہ میں دائيں بازو کے حامی ساؤتھ پورٹ میں بچوں کے قتل کے بعد سے احتجاج کر رہے ہیں۔ احتجاج اور نسل پرستانہ فسادات میں مسلمانوں اور ان کی املاک کو نشانہ بنایا جارہا ہے، 2 درجن سے زائد شہروں میں نسل پرستوں کے حملوں میں درجنوں پولیس اہلکار اور درجنوں شہری زخمی ہوچکے ہیں۔
برطانوی حکام نے پرتشدد واقعات کا ذمہ دار سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی افواہوں کو قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی اور مساجد کی حفاظت کے لیے ہر ضروری قدم اٹھایا جائےگا، دائیں بازو والے مساجد پر حملے کرکے “اپنا آپ “ دکھا رہے ہیں، بدامنی پھیلانے کے پیچھے “بدمعاش گروہ ملوث” ہے، ملک بھر کی پولیس فورسز پُرتشدد واقعات سے مل کر نمٹیں گی، مسلم کمیونٹی کی حفاظت کے لیے ہر وہ قدم اٹھایا جائےگا جو ضروری ہو۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نسل پرستانہ فسادات پر قابو پانے کے لیے 2 بار 'کوبرا' میٹنگ بھی طلب کرچکے ہیں، برطانیہ میں کوبرا میٹنگ حالت جنگ جیسی صورتحال میں بلائی جاتی ہے۔