20 اگست ، 2024
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے سکھر حیدرآباد موٹروے سے متعلق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو اگلے اجلاس میں طلب کرلیا جبکہ کمیٹی نے وزیر منصوبہ بندی اور حکام کو طلب کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کا اجلاس اعجاز جاکھرانی کی زیرِ صدارت ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مواصلات عبد العلیم خان نے کہا کہ ہمارے بہت سے محکمہ جات کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا، ہمارے محکمے حکومت کو پیسے کما کر دے سکتے ہیں، ہماری سرکاری کمپنیوں کو پیسہ کمانے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہمیں مواصلات کی وزارت کو منافع بخش بنانا ہے، ایک بڑا مسئلہ شاہرات پر ایکسل لوڈ ہے، استطاعت سے زائد وزن ڈالنے کی وجہ سے روڈ انفراسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے، ذیادہ لوڈ سے ایک لاکھ کمایا جائے تو اس پر محض 20 ہزار جرمانہ ہے، اس کا مطلب ایکسل لوڈ سے زائد لوڈ لادنے کی سرگرمی کو ایک طرح سے قانونی بنا دیا گیا ہے، سڑک تباہ ہو جائے گی تو ہمیں جرمانے سے کیا فائدہ ہوگا؟
ان کا کہناتھاکہ ایکسل لوڈ والا مسئلہ حل کریں گے اور ریونیو بڑھائیں گے، جی بی میں این ایچ اے کی 900 کلومیٹر سڑک پر ایک ٹول پلازہ ہے، لاکھوں کی تعداد میں لوگ چھٹیوں میں بغیر ٹول دیے جی بی گئے ہیں، سب سے ذیادہ منصوبوں پر لاگت بلوچستان میں آئی ہے، ہمیں 2.2 کھرب روپے کی ضرورت ہے جبکہ ایک ارب 80 کروڑ مختص کیے گئے ہیں، موجودہ ترقیاتی بجٹ اپنے پیسے ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
رکن کمیٹی سید مصطفیٰ کمال نے کہا کہ کیا پلاننگ کمیشن کے ساتھ اس معاملے پر بات نہیں ہو سکتی؟ وفاقی وزیر مواصلات نے جواب دیا کہ ہم اپنے منصوبے کم کرنے پر غور کر رہے ہیں، بلوچستان میں این ایچ اے سے کوئی آمدنی نہیں ہو رہی۔
سید مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ یہ تو محض تختی لگانے والا کام ہے، یہ لوگوں کو بیوقوف بنانے والی بات ہے۔ رکن کمیٹی رانا مبشر بولے موجودہ بجٹ میں جو منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں انہیں تو مکمل کریں۔
رکن کمیٹی حمید حسین نے کہا کہ دریائے سندھ کے ساتھ منصوبے لگانے پر موجودہ سیکرٹری کو بھگتنا بھی پڑا۔ سیکریٹری مواصلات نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت کے امور پر بریفننگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایم 2 موٹروے پر ریسکیو 1122 کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں، وزارت مواصلات کے 11 ممالک کے ساتھ معاہدات ہیں، بھارت کے ساتھ مسافروں کے حوالے سے معاہدہ موجود ہے، افغانستان کے ساتھ صرف تجارت پر معاہدہ کیا گیا ہے۔
چیئرمین این ایچ اے نے کہا کہ این ایچ اے ایگزیکٹو بورڈ میں نجی شعبے کی شمولیت کیلئے تشکیل نو کی جائے گی، ہمارے 17 منصوبوں کو فنڈنگ مہیا کی جائے تو اسی سال مکمل ہوں گے، این ایچ اے کیلئے ترقیاتی بجٹ میں ایک کھرب 80 کروڑ مختص کیے گئے ہیں، 128 ارب روپے کی لاگت سے 5875 کلومیٹر پر سڑکوں کی مرمت ہو رہی ہے، پانچ سالوں میں 2510 کلومیٹر سڑکوں کی مرمت مکمل کی جا چکی ہے۔
سکھر تا حیدرآباد موٹروے پر وزارتِ مواصلات کے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دینا شروع ہی کی تو چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لاہور تا بہاولپور سڑک کی تعمیر کی منظوری دے دی گئی ہے مگر سکھر تا حیدرآباد موٹروے سڑک کی تعمیر شروع کیوں نہیں کی گئی؟ این ایچ اے حکام نے بتایا کہ 360 کلومیٹر پر مبنی سکھر تا حیدرآباد موٹروے کراچی تا پشاور ایم 6 منصوبے کا آخری نامکمل حصہ ہے، موجودہ معاشی صورتحال میں کسی بیرونی کمپنی کا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا بہت مشکل ہے۔
حکام کا کہناتھاکہ تین روسی کمپنیوں نے سکھر تا حیدرآباد موٹروے کی تعمیر میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اس منصوبے کی تعمیر کیلئے 15 ارب سندھ حکومت کو دے دیے گئے ہیں۔
رکن کمیٹی شبیر احمد بجارانی نے کہا کہ پنجاب کی صوبائی سڑک آپ بنا رہے ہیں تو ایم 6 کا یہ حصہ کیوں نہیں بن سکتا؟
قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور حکام کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ کمیٹی نے اگلے اجلاس میں سکھر حیدرآباد موٹروے سے متعلق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بھی طلب کرلیا۔