31 اگست ، 2024
وفاقی وزیر پاور اویس لغاری نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کو صاف صاف بتا دیا کہ آئی پہ پیز سے کیے گئے معاہدے یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیے جا سکتے، ورنہ ریکوڈیک کے جرمانے جیسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔
کمیٹی کو بتایا گیا گزشتہ 10 سالوں میں گیس اور ایل این جی پر چلنے والے 11 پاور پلانٹس کو 538 ارب روپے کی کیپیسٹی کی مد میں ادائیگیاں کی گئیں، فرنس آئل پر چلنے والے 13 پاور پلانٹس کو 760 ارب روپے کی کیپیسٹی پیمنٹس ہوئی۔
اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین محسن عزیز نے کہا کہ تمام معاہدے سامنے آگئے ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پاور کو آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کاپیاں جمع کروا دی گئی ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نیپرا نے آئی پی پیز کو 15 سے 16 فیصد منافع کی اجازت دی جبکہ آئی پیز کی بیلنس شیٹس 60 سے 70 فیصد منافع دکھا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محمد علی رپورٹ میں آئی پی پیز کی طرف سے 'اوور انوائسنگ' اور آئی پی پیز کا 'ہیٹ ریٹ' نہ ہونے کا تذکرہ بھی کیا گیا۔
اس موقع پر رکن کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے سوال کیا کہ بتایا جائے کہ معاہدے کونسی حکومتوں میں ہوئے، بجلی کا وزیر اور سیکرٹری کون تھا، آئی پی پیز کے منافعے منشیات کی کمائی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔
وفاقی وزیر پاور اویس خان لغاری نے کہا کہ محمد علی رپورٹ میں آئی پی پیز کے 'ہیٹ ریٹ آڈٹ' کا کہا گیا تھا جو نہ کیا گیا، جن کی ضرورت نہیں ان آئی پی پیز کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن یکطرفہ طور پر نہیں کرنا چاہتے، مستقبل میں اچھی خبردیں گے۔