26 نومبر ، 2024
فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل مرض قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے شکار افراد کو اکثر اس کا علم نہیں ہوتا جبکہ امراض قلب بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے۔
مگر ادویات کے بغیر بھی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بہت آسان ہے اور کسی خرچے کی ضرورت بھی نہیں۔
درحقیقت روزانہ کی بنیاد پر اپنی غذا میں ایک چائے کے چمچ کے برابر نمک کی مقدار کم کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح میں ادویات جتنی کمی لائی جاسکتی ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ادویات استعمال کرنے والے ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد غذا میں نمک کی مقدار محدود کرکے بلڈ پریشر کی سطح کو نمایاں حد تک کم کر سکتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ ادویات سے ہٹ کر بھی غذا میں نمک کی مقدار کم کرکے بلڈ پریشر کی سطح میں 70 سے 75 فیصد کمی لانا ممکن ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 3 میں سے ایک بالغ فرد ہائی بلڈ پریشر سے متاثر ہے جس سے ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیلیئر، فالج اور گردوں کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق میں 50 سے 75 سال کی عمر کے 213 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
تحقیق میں شامل 25 فیصد افراد کا بلڈ پریشر معمول پر تھا، 25 فیصد ہائی بلڈ پریشر کے شکار تھے مگر ان کا علاج نہیں ہو رہا تھا جبکہ باقی بھی ہائی بلڈ پریشر کے شکار تھے مگر ان کاعلاج ہو رہا تھا۔
ان افراد کو پہلے ایک ہفتے تک زیادہ اور مزید ایک ہفتے تک کم نمک والی غذاؤں کا استعمال کرایا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ غذا میں نمک کی محدود مقدار استعمال کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح میں فوری اور ڈرامائی کمی آتی ہے۔
محققین کے مطابق غذا میں نمک کی مقدار محدود کرنے سے بلڈ پریشر میں اتنی ہی کمی آتی ہے جتنی ادویات کے استعمال سے آتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ نمک کا استعمال محدود کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح میں فوری کمی آتی ہے اور صحت مند افراد کا بلڈ پریشر زیادہ عرصے تک مستحکم رہتا ہے جبکہ مریضوں میں بھی یہ دورانیہ مناسب ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غذا میں نمک کی مقدار کم کرنے سے مضر اثرات کا سامنا نہیں ہوتا، البتہ ہوسکتا ہے کہ کھانوں کا ذائقہ زیادہ اچھا نہ لگے۔
محققین نے بتایا کہ ہمارے ذائقے کی حس کو صورتحال سے مطابقت میں کچھ وقت لگ سکتا ہے مگر بلڈ پریشر کی سطح فوری طور پر بہتر ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل JAMA میں شائع ہوئے۔