17 دسمبر ، 2024
امریکا کی ایک فیڈرل کورٹ نے گزشتہ ہفتے ٹک ٹاک کی جانب سے ایپ پر پابندی کے امریکی قانون پر عملدرآمد کچھ وقت کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
اب سوشل میڈیا کمپنی کی جانب سے مہلت کے لیے امریکی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے جو ممکنہ طور پر پابندی سے بچنے کے لیے اس کی آخری کوشش بھی ہے۔
ٹک ٹاک کی جانب سے سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کو عارضی طور پر روک دیا جائے۔
اس قانون کا اطلاق 19 جنوری 2025 سے ہوگا۔
خیال رہے کہ اس امریکی قانون کے تحت ٹک ٹاک کو 19 جنوری تک امریکا میں کمپنی کو فروخت کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اس مدت میں کمپنی کو فروخت نہ کرنے پر امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ٹک ٹاک کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ امریکی شہریوں کے آزادی رائے کے حق کا تحفظ کیا ہے۔
بیان کے مطابق ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ اس کی جانب سے وہی کیا جائے جو وہ تاریخی طور پر آزادی رائے کے لیے کرتی رہی ہے۔
سوشل میڈیا کمپنی کا مؤقف ہے کہ یہ قانون غیر آئینی ہے اور اس نے امریکی آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی کی ہے۔
مگر 6 دسمبر کو یو ایس کورٹ آف اپیلز کے 3 ججوں پر مشتمل پینل نے ٹک ٹاک کی قانون کو غیرآئینی قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ٹک ٹاک نے نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹک ٹاک پر پابندی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو امریکی صدر کا عہدہ سنبھالیں گے یعنی ٹک ٹاک پر پابندی کے ایک دن بعد۔
ٹک ٹاک کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس قانون کو عارضی طور پر معطل کر دیا جائے گا تاکہ کمپنی کو حتمی عدالتی اپیل کے لیے وقت مل سکے۔
اگر سپریم کورٹ نے قانون پر عملدرآمد عارضی طور پر روکنے کی درخواست مسترد کی تو 19 جنوری کو امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد ہو جائے گی۔
اس صورت میں ٹک ٹاک کی قسمت کا فیصلہ موجودہ صدر جو بائیڈن کے ہاتھوں میں ہوگا جو 19 جنوری کی ڈیڈلائن میں 90 دن کا اضافہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تاکہ ویڈیو شیئرنگ ایپ کی فروخت کا معاملہ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ طے کرسکیں۔