29 دسمبر ، 2024
گردوں کے امراض کا سامنا اس وقت ہوتا ہے جب یہ عضو خون میں موجود کچرے اور اضافی پانی کو مؤثر طریقے سے ہٹانے میں ناکام رہتا ہے۔
گردوں کے امراض کی چند عام اقسام میں گردوں کے دائمی امراض، انفیکشنز اور پتھری شامل ہیں۔
گردوں کے امراض کی علامات ان کی اقسام کے مطابق کچھ مختلف ہوتی ہیں، کچھ افراد کو تو ان کا علم بہت تاخیر سے ہوتا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 میں سے ایک فرد کو گردوں کے دائمی امراض کا سامنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں سیال اور دیگر مواد جسم میں اکٹھا ہونے لگتا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کن وجوہات کے باعث لوگوں کو گردوں کے امراض کا سامنا ہوتا ہے۔
اس کا جواب ہے کہ ذیابیطس کی بیماری گردوں کے امراض کا شکار بنانے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ذیابیطس کی دونوں عام اقسام یعنی ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 سے گردوں کے امراض سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھتا ہے۔
صرف امریکا میں ہی ذیابیطس کے شکار ایک تہائی افراد گردوں کے امراض کا سامنا کر رہے ہیں۔
ذیابیطس کے دوران بلڈ شوگر کی سطح بڑھ جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں گردوں کی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور اس کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
ذیابیطس کے بعد ہائی بلڈ پریشر بھی گردوں کے تکلیف دہ امراض کا شکار بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ فشار خون کے باعث گردوں کے افعال میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے۔
اس کے علاوہ آٹو امیون امراض جیسے Lupus بھی گردوں کے امراض کا باعث بننے والی اہم وجہ ہے۔
مخصوصی ادویات جیسے اینٹی بائیوٹیکس، کینسر کی ادویات اور درد کش ادویات کو بھی گردوں کے امراض کی اہم وجوہات میں شامل کیا جاتا ہے۔
گردوں کی ننھی شریانوں میں ورم اور گردوں کے مختلف انفیکشنز بھی اس عضو کے دائمی امراض کا شکار بنانے والی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔
خطرہ بڑھانے والے عناصر
امراض قلب اور موٹاپے کے شکار افراد میں گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
امراض قلب کے دوران گردوں کی جانب سے خون کا بہاؤ گھٹ جاتا ہے جبکہ موٹاپے سے ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر دونوں کا خطرہ بڑھتا ہے اور یہ دونوں بیماریاں گردوں کو متاثر کرتی ہیں۔
خاندان میں گردوں کے امراض کی تاریخ سے بھی یہ خطرہ بڑھتا ہے۔
اسی طرح پانی کم پینے کی عادت بھی آپ کو گردوں کے امراض کا شکار بنا سکتی ہے۔
اگر آپ تمباکو نوشی کے عادی ہیں تو یہ عادت پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ گردوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔