30 جنوری ، 2025
اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر کیس کی سماعت میں جسٹس حسن اظہر نے سوال کیا کہ کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی جہاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔
دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی نظام میں ذکر نہیں اور فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں لکھا ہے فوجی عدالتیں جنگی صورتحال میں بنائی گئی تھیں، شہریوں کے ٹرائل کےلیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی تھی۔
اس پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ٹرائل کے لیے ترمیم کی ضرورت نہیں تھی، ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں مزید جرائم کو شامل کیا گیا تھا۔
جسٹس حسن اظہر نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں مہران اور کامرہ بیسز کا بھی ذکر ہے، جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کہاں ہوا تھا؟ کامرہ بیس پر حملہ آور ملزمان کا ٹرائل کہاں ہوا تھا ؟ پاکستان کے اربوں روپے مالیت کے 2 اورین طیارے تباہ ہوئے تھے، کیا 9 مئی کا جرم دہشتگردی کے واقعات سے زیادہ سنگین ہے؟
جسٹس حسن کے سوالات پر وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران بیس حملے کے تمام دہشتگرد مارے گئے تھے، اس پر جسٹس حسن سوال کیا کیا مارے جانے کے بعد کوئی تفتیش نہیں ہوئی کون تھے؟ کہاں سے اور کیسے آئے؟ کیا دہشتگردوں کے مارے جانے سے مہران بیس حملے کی فائل بند ہوگئی؟
وکیل وزارت دفاع نے جواب دیا تحقیقات ضرور ہوئی ہوں گی، جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوا تھا اور ٹرائل 21 ویں آئینی ترمیم سے پہلے ہوا تھا، اس پر جسٹس حسن نے کہا تمام حملوں کی بنیاد پر آئینی ترمیم کی گئی تھی تاکہ ٹرائل میں مشکلات نہ ہوں۔
سماعت میں بلوچستان حکومت کے وکیل سکندر مہمند نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لئے جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ بلوچستان حکومت کی وکالت کیسے کر سکتے ہیں؟ نجی وکیل ہی کرنے ہیں تو ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بند کر دیں، پہلے تو بلوچستان حکومت کو اپنا حق دعویٰ ثابت کرنا ہوگا، صوبائی حکومت کا اس معاملے سے کیا لینا دینا پہلے یہ بتانا ہوگا۔
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کا کہ 9 مئی واقعات کےملزمان کونہ کبھی بری کرنے کا کہا نہ یہ ہمارا کیس ہے، ہمارا کیس صرف اس حد تک ہے سِویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا، سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کا سول عدالتوں کی بجائے فوجی عدالتوں پر اعتماد کیوں ہے؟ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا یہ اعتراض تو دوسری طرف سے بھی آ سکتا ہے۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمیں کبھی کورٹ مارشل کرنے والے افسران پربھی کوئی اعتراض نہیں رہا، اس موقع پر جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ جس عدالت نےسِویلین کو فوجی تحویل میں دیا اس فیصلےکو چیلنج کیوں نہیں کیا؟ اس فیصلےکو آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا؟ اس پر خواجہ احمد حسین نے کہا آرٹیکل 199 کا رٹ اختیار حق نہیں ہے بلکہ یہ عدالت کی صوابدید ہوتی ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے آئین سب سے سپریم قانون ہے،سویلین ملزمان اور مسلح افواج کے ملزمان میں کیا فرق ہے؟ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کراچی اور تربت میں رینجرزکے ہاتھوں سِویلین کے قتل کا ٹرائل سول عدالتوں میں چلا تھا۔
وکیل خواجہ حسین نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ جب آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہےتو بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں، قانون بنا کر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو ہائیکورٹ میں اپیل کا حق دیا گیا مگر عام شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں، وفاق کی جانب سے بار بار کہا گیا کہ ملٹری کورٹس کے فیصلوں میں وجوہات دی جائیں گی، اب کہا جا رہا ہے کہ وجوہات ہوتی ہی نہیں۔
خواجہ احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل8 تین میں کہا گیا آرمی ایکٹ کو آرٹیکل 8 میں بنیادی حقوق سے مستثنا کیا گیا، آرٹیکل 8 تین میں آرمڈ فورسز کے ممبران کا ذکر ہے، آئین سازوں نے آرمڈفورسز کے ممبران کا ذکر کر کے سب واضح کر دیا، واضح ہو گیا آرمڈفورسز کےلیے قانون کا اطلاق عام شہریوں پر نہیں، اگر عام شہریوں کےلیے گنجائش چھوڑنا ہوتی تو الفاظ مختلف ہوتے۔
اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا پھر آرٹیکل 8 تین میں ممبرز آف آرمڈ فورسز کے بجائے صرف آرمڈ فورسز ہوتا؟ اس پر خواجہ احمد حسین نے جواب دیا جی بالکل، ممبرز کا ذکر آنے سے طے ہو گیا عام شہریوں کا وہاں ٹرائل نہیں ہوگا۔