02 فروری ، 2025
آسٹریلیا میں کچھ عرصے قبل 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کی قانون سازی کی گئی تھی جس پر عملدرآمد رواں سال کسی وقت ہوگا۔
اب آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا نے بھی ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا میں بچوں کو نقصان دہ آن لائن مواد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے عمر کی حد طے کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
انڈونیشین صدر Prabowo Subianto نے وزرا کو بتایا کہ ایسے قوانین ایک سے 2 ماہ میں مرتب کیے جائیں جن کے ذریعے آن لائن بچوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
انڈونیشیا کی وزیر برائے ڈیجیٹل افیئر Meutya Hafid نے ایک بیان میں بتایا کہ ان قوانین میں سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے لیے عمر کی حد کا قانون بھی شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
حکام کی جانب سے آن لائن سرگرمیوں کی مانیٹرنگ بھی سخت کیے جانے کا امکان ہے۔
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کے لیے کم از کم عمر کیا ہوگی۔
کچھ عرصے قبل Meutya Hafid نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس منصوبے پر انڈونیشین صدر سے بات کر چکی ہیں۔
انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ ہم نے موجودہ عہد میں بچوں کو آن لائن سرگرمیوں سے تحفظ فراہم کرنے پر بات کی اور صدر نے منصوبے کو آگے بڑھانے کی ہدایت کی۔
انڈونیشیا کی 79.5 فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے اور 12 سال سے کم عمر 48 فیصد بچے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹا گرام اور ٹک ٹاک کو استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح 12 سے 27 سال کی عمر کے 87 فیصد افراد انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
انڈونیشیا کے علاوہ سنگاپور کی جانب سے بھی اسی طرح کی قانون سازی پر غور کیا جا رہا ہے۔
سنگاپور میں اس قانون کے تحت 12 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے سے روکا جائے گا یا ان کو ڈاؤن لوڈنگ تک رسائی نہیں دی جائے گی۔