11 فروری ، 2025
میک امریکا گریٹ اگین Make America Great Againکا نعرہ لگا کر جیسے ہی صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا، ایگزیکٹو آرڈرز کی ایک یلغار نے سرخیاں بنانی شروع کر دیں، یہ فیصلے نہ صرف امریکا میں داخلی مخالفت کو ہوا دے رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی امریکی قیادت کے بارے میں تاثرات کو یکسر تبدیل کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ٹرمپ ایک ایسی متنازع شخصیت کے طور پر ابھر رہے ہیں جو ایک عالمی طاقت کو تنہائی کی طرف لے جا رہی ہے۔
اسرائیل ہمیشہ ہی امریکی خارجہ پالیسی کا 'چہیتا بچہ' رہا ہے، مگر ٹرمپ کے دور میں یہ تعلق اور زیادہ گہرا ہو گیا، ٹرمپ نے نیتن یاہو کے امریکا آنے پر اسرائیل کو گود میں ہی اٹھالیا، ان کے غزہ سے متعلق سخت گیر بیانات نے عرب دنیا کو ناراض کر دیا، اسی دوران، انہوں نے پڑوسیوں کو ناراض کرنا شروع کیا،کینیڈا پر اضافی ٹیرف عائد کیے اور ساتھ ہی اسے امریکا کی 51 ویں ریاست بنانے جیسے اشارے دیے جب کہ گلف آف میکسیکو کو بدل کر خلیج امریکا رکھ دیا اور پاناما کینال کے بارے میں ان کے بیانات نے مزید تنازعات کو جنم دیا، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ بین الاقوامی حمایت تیزی سے کھو رہے ہیں اور امریکا کو سفارتی تنہائی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) سے علیحدگی کے بعد ٹرمپ نے امریکا کی عالمی سفارت کاری کے ایک اہم ستون، USAID کو بھی اچانک بند کر دیا، یہ وہ ادارہ تھا جو دہائیوں سے امریکا کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے اور عالمی اثر و رسوخ برقرار رکھنے کا ذریعہ تھا۔
ادھر ان کے قریبی ساتھی ایلون مسک اور ان کی نئی وزارت نے امریکی اداروں اور سفارتی مشنز کو غیر یقینی کی صورتحال میں ڈال دیا ہے، جس کے باعث واشنگٹن کی عالمی معاملات میں حیثیت مزید کمزور ہو رہی ہے۔
صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتے ہوئے صدر ٹرمپ نے عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا اور اس کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے حیران کن انداز میں کہا کہ 'اسے یہ جرات کیسے ہوئی کہ وہ نیتن یاہو پر جنگی جرائم کا الزام لگائے اور اس کی گرفتاری کا حکم دے؟' اس کے ساتھ ہی انہوں نے عدالت کے عملے پر پابندیاں عائد کر دیں، لیکن ان کے اشتعال انگیز اقدامات یہیں نہیں رکے، انہوں نے جنس کی تخصیص (Gender Identity) کے حوالے سے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس نے امریکا کے یورپی اتحادیوں میں بھی شدید ردعمل کو جنم دیا اور واشنگٹن کو عالمی برادری سے مزید دور کر دیا۔
امریکا جو کل تک جدید دنیا کا مسلمہ لیڈر تھا، پڑوسیوں کو ناراض کرکے یورپی دوستوں کو تشویش میں مبتلا، عرب دنیا کے انویسٹرز کو سیخ پا کر کے ٹرمپ نے اچانک امریکا کو جیسے ایک لاتعلق جزیرے پر لا کھڑا کیا ہے، امریکا جو کہ پہلے ہی چین کے زیراثر میں آتی دنیا سے پریشان تھا اور اپنی بالادستی کی جنگ میں مشکلات سے دوچار تھا اب بالکل ہی اجنبی بن گیا ہے۔
دنیا کو اسے ایک موقع پر دیکھنا چاہیے، جہاں یونی پولردنیا ایک بار پھر کسی لیڈر کی تلاش میں ہے، کون ہے جو ایسے میں آگے بڑھ کر قیادت سنبھالے گا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کا وعدہ کرے گا۔
کیا واقعی ٹرمپ نے دیگر طاقتوں کو یہ موقع اپنے ہاتھ سے دے دیا ہے؟ ٹرمپ کے ناقدین کا خیال ہے کہ ان کے ہوتے امریکا کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں، آنے والے دنوں میں یہ گتھی سلجھ جائے گی، امریکا کا نیا رول کیا ہوگا یہ تب ہی پتہ چل سکے گا، جب یہ تابڑ توڑ ایگزیکٹو آرڈرز کی برسات رکے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔