2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے قانون میں ترمیم کے بعد، ججوں کی تعداد، چیف جسٹس سمیت، 10 سے بڑھا کر 13 کر دی گئی۔
22 فروری ، 2025
یکم فروری کو، جب حکومت نے تین حاضر سروس ججوں کو ان کے متعلقہ ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں منتقل کیا، تو سوشل میڈیا پر ایک دعویٰ گردش کرنے لگا کہ ان تبادلوں کے بعد ججوں کی تعداد 13 ہو گئی ہے، جو آئینی طور پر مقرر کردہ 12 ججوں کی حد سے تجاوز کرتی ہے۔
اس سے یہ سوالات پیدا ہوئے کہ آیا حکومت نے آئینی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
دعویٰ غلط ہے۔
ایک صارف نے X (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک تصویر پوسٹ کی اور کیپشن لکھا: ”آئین کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں 12 ججز کی گنجائش ہے، حکومت نے 13 بھرتی کر دیے، رجسٹرار آفس نے 13 کا روسٹر بھی جاری کر دیا۔“
تصویر میں مبینہ طور پر 13 ججوں کی فہرست دکھائی گئی تھی۔ یہ پوسٹ اب تک 9 ہزار سے زائد بار دیکھی، 340 سے زیادہ مرتبہ ری پوسٹ اور 770 سے زائد دفعہ لائک کی گئی ہے۔
2 فروری کو، X پر ایک اور اکاؤنٹ نے اسی طرح کا دعویٰ شیئر کرتے ہوئے کیپشن میں لکھا: ”آئین ردی کی ٹوکری میں پڑا ہے۔“
یہ دعویٰ غلط ہے۔ قانون کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بیک وقت 13 جج تعینات ہو سکتے ہیں، نہ کہ 12۔
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف کے تعلقات عامہ کی افسر اللہ رکھی نے اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ کی ایک کاپی شیئر کی، یہ قانون عدالتی امور کو ریگولیٹ کرتا ہے۔
یہ قانون پارلیمنٹ نے 4 نومبر 2024 کو ترمیم کے ذریعے منظور کیا، جس کے تحت ججوں کی تعداد 10 سے بڑھا کر 13 کر دی گئی، جس میں چیف جسٹس بھی شامل ہیں۔
اب، قانون کی دفعہ 3 کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ ایک چیف جسٹس اور 12 دیگر ججوں پر مشتمل ہوگی، جنہیں آئین کے تحت پاکستان کے صوبوں اور دیگر علاقوں سے مقرر کیا جائے گا۔
ترمیم سے قبل، 2010 کے قانون کے تحت ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سمیت 7 ججوں کی گنجائش تھی، جسے 2020 میں بڑھا کر 10 کر دیا گیا۔ بعد ازاں، 2024 میں ایک اور ترمیم کے ذریعے ججوں کی کل تعداد 13 کر دی گئی۔
یہ دعویٰ کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججوں کی آئینی حد 12 ہے، غلط ہے۔ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے قانون میں ترمیم کے بعد، ججوں کی تعداد، چیف جسٹس سمیت، 10 سے بڑھا کر 13 کر دی گئی۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@Geofactcheck اور انسٹا گرام@geo_factcheckپر فالو کریں۔
اگر اپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔