2018 کے ایک سرکاری نوٹیفکیشن میں وکلاء اور ان کے زیر کفالت افراد کو BPS 17 اور 18 افسران کے برابر طبی سہولیات کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا۔
03 مارچ ، 2025
آن لائن گردش کرنے والی ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ (LHC) نے پنجاب حکومت کو ہدایت دی ہے کہ تمام وکلاء، خواہ وہ پرائیویٹ ہوں یا سرکاری، کو بیسک پے اسکیل (BPS) 17 اور 18 میں سول سرکاری ملازمین کا درجہ دیا جائے۔
اس پوسٹ میں مزید یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وکلاء کو گزیٹیڈ افسران کے مساوی تنخواہ اور طبی فوائد حاصل ہوں گے۔
یہ دعویٰ گمراہ کن ہے اوراس میں اہم سیاق و سباق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
6 فروری کو ایک ٹک ٹاک پوسٹ میں لکھا گیا: ”ہائی کورٹ کا پنجاب بھر کے وکلاء کےلیے بڑا فیصلہ،وکلاء کو گریڈ 17/18 کا درجہ دے دیا گیا۔“ اس پوسٹ میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ایک مبینہ آرڈر نمبر (1778/24) بھی شامل ہے۔
پوسٹ میں مزید کہا گیا ہے:”اب وکلاء کسی بھی سرکاری اسپتال DHQ/THQ میں گریڈ 17/18 کے درجہ کے آفیسرز وارڈ میں اپنا ممبرشپ کارڈ دکھا کر علاج کروا سکتے ہیں۔“ اس آرٹیکل کے شائع ہونے کے وقت تک پوسٹ کو 1 لاکھ 32 ہزار سے زائد بار دیکھا، 419 مرتبہ شیئر اور 1 ہزار 900 سے زائد دفعہ لائک کیا گیا ہے۔
اسی طرح کے دعوے یہاں، یہاں اور یہاں بھی شیئر کیے گئے۔
یہ دعویٰ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی غلط تشریح کرتا ہے۔ اس حکم کا اطلاق صرف ان وکلاء پر ہوتا ہے جو پنجاب بار کونسل کی رکنیت رکھتے ہیں۔ یہ وکلاء حکومت کے ہسپتالوں میں، بشرطیکہ وہ پنجاب بار کونسل کا ممبرشپ کارڈ پیش کریں، گریڈ 17 اور 18 افسران کے مساوی مفت طبی علاج حاصل کرنے کے حقدار ہیں۔
جیو فیکٹ چیک نے ان دعووں میں ذکر کردہ لاہور ہائی کورٹ کے جنوری کے فیصلے کا جائزہ لیا ہے۔ جسے جسٹس جاوید حسن نے تحریر کیا۔ اس حکم میں 21 مئی 2018 کے پنجاب ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے نوٹیفکیشن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں صوبے کے تمام ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتالوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ وکلاء اور ان کے زیر کفالت افراد کو پنجاب بار کونسل کا درست ممبرشپ کارڈ دکھانے پر مفت طبی علاج فراہم کریں۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ درخواست مسترد کی جاتی ہے کیونکہ 2018 کا نوٹیفکیشن پہلے ہی وکلاء اور ان کے زیر کفالت افراد کو بی پی ایس 17 اور 18 افسران کے مساوی طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ یہ فوائد حکومت کے قانونی پینل پر موجود وکلاء کو بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔
2018 میں پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے وکلاء کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جاری کردہ نوٹیفکیشن۔
تاہم، یہ فیصلہ پورے صوبے میں وکلاء کو سول سرکاری ملازمین کا درجہ نہیں دیتا۔
اس کے علاوہ، پنجاب کے وزیر قانون ملک صہیب احمد بھرتھ نے بھی آن لائن دعووں کی تردید کی اور کہا: ”قانونی محکمہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے [وکلاء کو گزیٹیڈ افسر کا درجہ دینا]، اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔“
فیصلہ: پنجاب میں وکلاء کو گزیٹڈ افسران کا درجہ دینے کا دعویٰ گمراہ کن ہے۔ جبکہ بعض وکلاء ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ دیہی مراکز صحت میں بی پی ایس 17 اور 18 افسران کے برابر مفت علاج کے حقدار ہیں، انہیں سرکاری طور پر گزیٹڈ افسر کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
ہمیں X (ٹوئٹر)@GeoFactCheck اور انسٹا گرام@geo_factcheck پر فالو کریں۔
اگر آپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں