05 مارچ ، 2025
کراچی سے بھی کچھ بڑا برفانی تودہ لگ بھگ 40 سال بعد سمندر میں تیرنے کے بعد خشک سرزمین کے پاس پہنچ گیا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ عرصے سے سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اے 23 اے نامی یہ برفانی تودہ 1986 میں انٹار کٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہوکر بحیرہ ودل کی تہہ میں رک کر ایک برفانی جزیرے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
1500 اسکوائر میل رقبے پر پھیلا یہ برفانی تودہ کراچی سے بھی کچھ بڑا ہے۔
خیال رہے کہ کراچی کا رقبہ 1360 اسکوائر میل ہے۔
اب یہ برفانی تودہ جنوبی جارجیا میں واقع برطانیہ کے زیرتحت جزیرے کے قریب پھنس گیا ہے جس سے وہاں موجود لاکھوں پینگوئنز اور دیگر سمندری حیات کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
1986 میں انٹار کٹیکا سے الگ ہونے کے بعد برسوں تک یہ تودہ ایک جگہ رکا رہا مگر 2020 میں اپنی جگہ سے آگے بڑھ کر بتدریج South Orkney Islands تک پہنچ گیا۔
مگر پھر کئی مہینوں تک یہ برفانی تودہ ایک ہی جگہ پر سست روی سے گھومتا رہا اور دسمبر 2024 میں اس نے ایک بار پھر اپنا سفر شروع کیا تھا۔
پہلے بی اے ایس کے ماہرین کا خیال تھا کہ ساؤتھ جارجیا آئی لینڈ تک پہنچنے سے قبل یہ بتدریج پگھل جائے گا۔
تاہم حیران کن طور پر برفانی تودے کی ساخت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔
اب یہ خدشہ پیدا ہوا ہے کہ یہ برفانی تودہ جزیرے سے ٹکرا سکتا ہے یا اس کے قریب کم گہرے پانی میں پھنسا رہ سکتا ہے جس سے پینگوئنز اور seals کی آبادی متاثر ہوسکتی ہے۔
ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ برفانی تودہ وہاں کب تک پھنسا رہے گا اور برٹش انٹارکٹک سروے (بی اے ایس) کے اوشین گرافر اینڈریو مائیجرز نے بتایا کہ یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہوگا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
برف یہ کی بہت بڑی دیوار یکم مارچ سے جزیرے سے 73 کلومیٹر دور پھنسی ہوئی ہے اور اینڈریو مائیجرز کے مطابق اگر یہ تودہ وہی رہا تو پھر مقامی سمندری حیات پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہوگا۔
یہ برفانی تودہ بحری جہازوں کے لیے خطرہ نہیں کیونکہ یہ اتنا زیادہ بڑا ہے کہ جہازوں کے لیے اس سے بچنا بہت آسان ہوتا ہے۔
مگر جب یہ چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگا تو پھر محدود سمندری حصوں میں جہازوں کا سفر متاثر ہوسکتا ہے۔