11 مارچ ، 2025
ارمغان کو ہر محاذ پر سہولت ملنے کے پیچھے کون سا دوست ہے؟ قابل اعتماد حلقوں میں مصطفیٰ قتل کیس سے منسلک تمام باتیں زیر بحث ہیں کہ کس کی مداخلت پر ارمغان نے جس لڑکی پر بیہمانہ تشدد کیا اس کی ایف آئی آر نہ درج ہونے دی جب کہ اس لڑکی کا شدید زخمی حالت میں ڈیفنس کے اسپتال میں علاج ہوا۔
اس کے خلاف درج متعدد لڑائی جھگڑا، دنگا فساد اور منشیات کی ایف آئی آرز کی کارروائیاں اپنے منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچ سکیں۔
یہ بات بھی حیران کن رہی کہ پولیس چھاپے کے وقت ارمغان اکیلا 4 گھنٹے تک فائرنگ کرتا رہا اور ایک ڈی ایس پی سمیت دوسرے اہلکار کو زخمی بھی کیا مگر 4 گھنٹے تک پولیس اہلکار اس کو گرفتار نہ کرسکے جب تک کہ اس نے اپنے لیپ ٹاپ اور تیسرے آئی فون کا ڈیٹا ڈیلیٹ نہیں کردیا (پولیس کہتی ہے کہ تیسرا فون ان کو نہیں ملا)۔
4 گھنٹے تک پولیس کو اندر جانے سے کس کی ہدایت پر روکے رکھا گیا؟ کس کے کہنے پر ملزم کا باپ جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے؟
ان تمام اور دیگر سوالات کا صرف ایک جواب ایک افسر نے دیا جس نے کہا کہ ’ملزم 29 برس کا ہے، اس کا ایک دوست 33 برس کا ہے، مذکورہ دوست ایک سیاسی پارٹی کے سینئر رہنما کا چھوٹا بیٹا ہے‘۔
افسر کے مطابق ارمغان کے اس دوست کے باپ، اس کے دونوں بیٹے اور ساتھ ہی ان کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی اس کیس میں اثر انداز ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملزم ارمغان کو ہر جگہ سہولت مل رہی ہے اور وہ اپنی مرضی سے بیان دیتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔