23 مارچ ، 2025
دوپہر کے ایک سے 4 بجے کا وقت ایسا ہوتا ہے جب متعدد افراد کو عجیب سستی اور غنودگی کا سامنا ہوتا ہے اور ان کے لیے آنکھیں کھلی رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایسی کیفیت میں جسمانی توانائی کم محسوس ہوتی ہے، جبکہ تھکاوٹ کا احساس بھی ہوسکتا ہے۔
مگر درمیانی عمر یا بڑھاپے میں دوپہر کو غنودگی کا تجربہ روزانہ ہونے لگے تو یہ ایک سنگین مرض کی نشانی بھی ہوسکتی ہے۔
اس نشانی سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آپ میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے مرض ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوپہر میں بہت زیادہ غنودگی کا سامنا کرنے والے افراد میں ڈیمینشیا سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
اس تحقیق میں 733 خواتین کو شامل کیا گیا جن کی اوسط عمر 83 سال تھی اور تحقیق کے آغاز میں کوئی بھی خاتون ڈیمینشیا کی علامات سے متاثر نہیں تھی۔
تحقیق کے دوران 164 خواتین میں ڈیمینشیا سے معمولی دماغی تنزلی کو دریافت کیا گیا جبکہ 93 خواتین باقاعدہ طور پر ڈیمینشیا سے متاثر ہوگئیں۔
تحقیق کے آغاز اور اختتام پر کلائیوں پر تمام خواتین کو ڈیوائسز پہنا کر 3، 3 دن تک ان کی نیند اور جسمانی گھڑی کے افعال کا جائزہ لیا گیا۔
5 سال تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران محققین نے 56 فیصد خواتین کی نیند کی عادات میں بڑی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔
محققین نے نیند کی عادات کے مطابق خواتین کو 3 گروپس میں تقسیم کیا، 44 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی رات کے نیند کا دورانیہ معمولی حد تک بہتر ہوگیا، 35 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی نیند کے دورانیے میں کمی آئی اور دوپہر کو غنودگی بڑھ گئی جبکہ 21 فیصد ایسی تھیں جن کی رات کی نیند کے دورانیے کے ساتھ ساتھ معیار بھی گھٹ گیا جبکہ وہ دوپہر کو زیادہ وقت تک سونے لگیں اور جسمانی گھڑی کے افعال ناقص ہوگئے۔
یہاں تک کہ ان میں دوپہر اور رات کے وقت بھی غنودگی کی کیفیت بڑھ گئی۔
تینوں گروپس میں کچھ خواتین میں ڈیمینشیا کی تشخیص ہوئی مگر یہ شرح اس گروپ میں سب سے زیادہ تھی جس کی غنودگی کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔
عمر، تعلیم اور دیگر عناصر کو مدنظر رکھنے کے بعد دریافت ہوا کہ دوپہر یا دن میں کسی بھی وقت غنودگی کا سامنا کرنے والے افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق کے 5 سال کے دوران خواتین کی نیند، قیلولے اور جسمانی گھڑی میں تبدیلیاں آئیں مگر اس کے پیچھے چھپے میکنزمز کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیورولوجی میں شائع ہوئے۔