Time 07 اپریل ، 2025
دنیا

طالبان کا افغانستان: خطے میں امن کی حکمت عملی؟

طالبان کا افغانستان: خطے میں امن کی حکمت عملی؟
جہاں تک انخلا کی بات ہے، طالبان امریکا امن مذاکرات کے مختلف ادوار کے دوران یہ تصور بھی نہ تھا کہ افغانستان ایک بار پھر اس قدر بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھنے پر مجبور ہوگا— فوٹو: نسیم حیدر

امریکا لاکھ افغانستان کو چھوڑ کر جا چکا ہو اور عالمی منظر نامے میں اس ملک کا ذکر کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ پاکستان پر امریکی انخلا کے اثرات نے اپنے نقوش نہ چھوڑے ہوں۔

30 اگست 2021 کو جب امریکی فوج کا آخری طیارہ کابل سے روانہ ہوا، اس سے دو ہفتے پہلے یعنی 15 اگست ہی کو طالبان نے کابل پر پھر سے قبضہ کرکے عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ بظاہر یہ ایک ایسی کامیابی تھی جس کے بعد افغانستان میں نسبتاً امن اور خطے کے کسی قدر محفوظ ہونے کا تاثر پیدا ہوا تھا۔ توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ نئی طالبان حکومت تسلیم کرلی جائے گی۔

اتنا ہوا کہ افغانستان میں امن کی بات کسی حد تک ممکن ہوئی۔ اس کی شاید بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ طالبان کے بہت سے مخالفین نے لڑنے یا آواز بلند کرنے کے بجائے ملک چھوڑ کر نقل مکانی کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں افغان شہری پاکستان اور ایران ہی نہیں، امریکا اور یورپ بھی منتقل ہوئے جو یہ نہ کرسکے، انہوں نے خاموشی اختیار کرلی۔بعض ایسے بھی ہیں جو طالبان کے منتظر تھے۔

جہاں تک انخلا کی بات ہے، طالبان امریکا امن مذاکرات کے مختلف ادوار کے دوران یہ تصور بھی نہ تھا کہ افغانستان ایک بار پھر اس قدر بڑے پیمانے پر نقل مکانی دیکھنے پر مجبور ہوگا اور یہ بھی کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں کون سی نئی آفت سر اٹھائے گی جو خطے کیلئے دہشت کی علامت بن کر لوگوں کے سروں پر منڈلاتی رہے گی۔

میں یہ سب جاننا چاہتا تھا تاہم افغانستان کے معاملے میں میرا مطالعہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کی رہنمائی میں یہ مشکل اس وقت بڑی حد تک آسان ہوگئی جب میں نے ایم فل کی ٹھانی۔

سب سے بڑا فائدہ صحافی ہونے کا اٹھایا کیونکہ میں چودہ اگست سن دوہزار دو کو جیونیوز کے لانچ ہونے سے پہلے ہی اس ادارے سے وابستہ ہوگیا تھا۔ یہاں یہ سمجھنے کا موقع ملا کہ کس شخصیت سے کس موضوع پر بات بہتر ہوگی۔ ہر شخصیت کی علمیت کا اپنا معیار ہے مگر افسوس کہ جن رحیم اللہ یوسفزئی کی علمیت کا قدر دان رہا ہوں، انکا انٹرویو بوجوہ نہ کرسکا۔ ان کے لیے افغانستان ایسا ہی تھا کہ

بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہےشب وروز تماشہ مرے آگے

بحرحال سن دوہزار انیس سے فروری سن دوہزار پچیس کے دوران میں نے افغانستان پر تحقیق کی۔ اس دوران کئی اراکین کانگریس، سفارتکاروں، سیاستدانوں، فوجی افسروں، پروفیسروں، سینیئر صحافیوں اور مختلف شعبوں کی کئی دیگر اہم شخصیات سے انٹرویو کا موقع ملا۔ خواہش کے باوجود افغانستان تو نہ جاسکا تاہم افغان سفارتکار سے ملنے اور طالبان کو سمجھنے کا موقع ضرور ملا۔

بعض امور پر وقتاً فوقتاً مضامین لکھے تو فرانس میں پاکستان کے سابق سفیر غالب اقبال نے حوصلہ افزائی کی کہ اس سے آگے بڑھ کر کتاب لکھی جائے۔ جان ہاپکنز، جارج ٹاؤن اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے وابستہ پروفیسر اور سابق سفیر توقیر حسین نے یہاں میری مسلسل رہنمائی کی، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عنوان کے انتخاب سے کتاب چھپنے تک ہر مرحلہ ان کی سرپرستی میں انجام پایا۔

ٹی وی کے صحافی چونکہ خبر آتے ہی اسے نشر کیے جانے کے عادی ہوتے ہیں، اس لیے یہ بڑا تکلیف دہ مرحلہ تھا کہ سالوں بیٹھ کر لکھتے رہو، کتنی ہی چیزیں اس دوران اپ ڈیٹ کرنا پڑیں۔ انگریزی میں کتاب لکھنا یوں بھی مشکل تھا کہ عام طور پر ہم امریکی اور برطانوی انگریزی میں فرق بھول جاتے ہیں، جو دل میں آیا لکھ دیا۔ مضمون نویسی اور کتاب میں تسلسل کا جو فرق ہے، وہ قائم رکھنا بھی آڑے آتا رہا۔ یہ مشکل سینیئر صحافی آصف علی نے ایڈٹنگ سے دور کردی۔

کتاب میں ہے کیا، یہ تو کوئی بھی مصنف نہیں بتائے گا۔ سن دوہزار چھ میں جب سابق صدر مشرف کی کتاب ان دا لائن آف فائر شائع ہوئی تو اسی سال ستمبر میں وہ صدر بش سے ملاقات کرنے پہنچے تھے۔ رچرڈ آرمٹیج کی پاکستان کو مبینہ دھمکی سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے پرویز مشرف نے کہا تھا کہ ان کی کتاب کی تقریب رونمائی ہونے والی ہے، اس لیے وہ کچھ بول نہیں سکتے۔ صدر بش نے اس پر برجستہ کہا تھا کہ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ جواب چاہیے تو کتاب خریدلیں۔

خیر تحقیق کے آغاز سے کتاب مکمل ہونے تک کئی اہم سوالات ذہن میں گھومتے رہے جن کے جوابات تلاش کرنے کی جس قدر کوشش کی وہ ’Taliban 2.0: Post-US ‘Withdrawal Afghanistan میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہاں یہ ضروری ہوگا کہ ان چند سوالات کو پیش کر دوں۔ مثال کے طورپر نوے کی دہائی میں طالبان برسراقتدار آئے تھے تو چند ممالک نے ہی سہی، ان کی حکومت تسلیم کرلی تھی۔ 

اب طالبان حکومت تسلیم کرنے میں پہل کون کرے گا؟ یہ بھی کہ حالات سے سمجھوتہ کرکے کیا پاکستان اور خطہ طالبان حکومت تسلیم کرلے؟ سوال یہ بھی کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ طالبان کو پھر کیمپ ڈیوڈ کا دعوت نامہ دیں گے؟

خیال آیا کہ افغانستان سے امریکی اور سوویت انخلا کا موازنہ ہو تاکہ کچھ کہی، ان کہی سامنے آئیں کہ امریکا اپنے پیچھے کیساافغانستان چھوڑ گیا؟ یہ بھی کہ کیا واقعی افغان عوام نے طالبان کو خوشدلی سے قبول کیا؟

ایک بات یہ کہ طالبان کادوسرا جنم، پہلے جنم سے کتنا مختلف ہے؟ یہ بھی کہ طالبان میں اختلافات، حقیقت ہے یا ڈرامہ؟ اور طالبان نے اہم عہدوں پر کسے بٹھایا اور کیوں؟

سقوط کابل سے پہلے بھی کئی باتیں ایسی ہوئی تھیں جنہیں ہضم کرنا آج بھی مشکل ہے۔ مثال کے طورپر چین اور روس نے انتہاپسند طالبان کوگلے کیوں لگایا؟ ایران کی مذہبی حکومت نے طالبان سے پینگیں کیوں بڑھائیں؟ اعتدال پسند حامد کرزئی اور اشرف غنی کا ساتھ کیوں نہ دیا گیا؟

یہ بھی کہ کیا دنیا کو واقعی اندازہ تھا کہ طالبان پورے افغانستان پرقبضہ کرلیں گے؟ یہ بھی کہ طالبان نے افغانستان پرقبضہ کیا کیسے؟سب سے بڑھ کر وادی پنجشیر کے شیر دھاڑے بغیر خاموش کیوں ہوگئے، وادی کے اطراف پہاڑ طالبان کیخلاف مزاحمت کو ترستے کیوں رہ گئے؟

افغانستان میں امن کی کوششوں سےمتعلق بھی کئی سنجیدہ سوالات تھے۔ دوحہ امن معاہدہ تو ہوگیا،امریکا نے اصل ہاتھ کس کے ساتھ کیا؟یہ بھی کہ کیا سی آئی اے آج بھی افغانستان میں موجود ہے؟مبینہ خفیہ دستاویز کی حقیقت کیا ہے؟ ماسکو فارمیٹ، چین، ایران اور پاکستان کی امن کوششوں میں فرق کیا تھا؟

بھارت اور افغانستان کی بڑھتی قربت کے دوران افغان فوجیوں نے سرحد پر کسے بٹھایا؟ افغانستان میں موجود کالعدم ٹی ٹی پی سے اصل خطرہ ہے کسے؟ وسط ایشیائی ریاستوں میں انتہاپسندی کے نتائج کیا ہوں گے؟ افغانستان، کس کا دوست، کس کا دشمن، حقیقت کب کھلے گی؟

پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے افغانستان میں انتہاپسند طالبان مسلط کیے۔ سوال یہ بھی ہے کہ خود پاکستان اور اس خطے میں انتہاپسندی کی بنیاد کس نے رکھی؟ کیا محض جنرل ضیا الحق کو مورد الزام ٹھہرا کر جان چھڑائی جاسکتی ہے؟

اس خطے میں انتہاپسندی اور دہشتگردی نے لاکھوں گھروں کے چراغ بجھائے ہیں۔ واقعات اس تسلسل کے ساتھ ہوئے کہ خبریں سننے والے واقعے کی سنگینی کا اندازہ مارے گئے افراد کی تعداد سے کرتے ہیں جہاں ایک ایک روز میں سیکڑوں لوگ مارے جاتے رہے ہوں وہاں آٹھ دس افراد کو مار دیا جانا کس کی توجہ لے گا؟ یہاں میں نے منظر کشی بھی کی ہے کہ آپ پر گزرتی کیا ہےجب کوئی پیارا دم توڑے اورآپ خود نیم جاں ہوں؟

یہ جاننے کی بھی کوشش کی ہے کہ افغانستان اقتصادی گزر گاہ بن سکے گا اور اگر اسکا جواب ہاں میں ہے تو کب اور کیسے؟ اس حصے میں ان اہم منصوبوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اس خطے کی قسمت بدلنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

چھ ابواب اور 176 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے آخری حصے میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کا فارمولہ ہے کیا؟

مجموعی طورپر نظرڈالوں تو میں کتاب سے خود بہت زیادہ مطمئن نہیں ہوں، بار بار مواد ٹائپ کیا اور ڈیلیٹ کرتا رہا۔ ا ب بھی بہت کچھ ہے جو رہ گیا۔ بہت کچھ ایسا بھی ہے جو کہیں زیادہ بہتر انداز سے لکھا جاسکتا تھا۔

نادانی میں ایک خامی یہ ہوئی کہ جہاں جہاں ریفرنسز تھے وہ غلط ملط ہو گئے۔ اصلاح تو نہ کرسکا مگر اتنا ضرور کیا کہ ان تمام ریفرنسز کو کتاب کے آخر میں شائع کردیا کیونکہ ان اداروں اور افراد کی محنت کےبغیر یہ کتاب لکھنا ناممکن تھا۔

صحافی اور محقق کی لکھائی میں بھی بہت فرق ہوتا ہے، اسے جاننے کی بہت کوشش کی۔ عملی طورپر اس میں کس حد تک کامیاب ہوا، یہ فیصلہ بھی دیانتداری سے کروں تو جواب واضح ہے۔

سب سے بڑھ کر یہ جب لوگ بات کرتے ہیں یا لکھتے ہیں تو بہت سے افراد تصور کرتے ہیں کہ فلاں صاحب بہت عمدہ لکھتے ہیں، عالم وفاضل ہیں، صاحب بصیرت ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ہوتا اکثر یہ ہے کہ وہ شخص ایسی بیساکھیوں پر کھڑا ہوتا ہے جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہیں۔

ابتدائیہ میں ان تمام شخصیات سے اس لیے اظہار تشکر کیا گیا ہے کہ اصل کوشش ان کی تھی کہ مجھے صاحب کتاب بنادیں ورنہ یہ مضمون اتنا مشکل ہے کہ ان سب کی محنت کےباوجود آپ کو کتاب میں بہت سے غلطیاں ملیں گی۔

اس سب کے باوجود یہ سوچ کر کتاب شائع کردی کہ ممکن ہے پہلی تحریر پر تنقید ہو تو ان باتوں کو مدنظر رکھ کر دوسری تحریر میں کچھ نکھار پیدا کرپاؤں۔

مزید خبریں :