02 مئی ، 2025
پاکستان اوربھارت کے درمیان جنگ کےبادل کسی حد تک چھٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ تاہم یہ خدشہ ابھی ختم نہیں ہوا کہ جنونی مودی سرکار کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کی بنا پر ایسا اقدام کر بیٹھے جس میں اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔
سوال یہ ہے کہ بھارت میں پورے زور و شور سے بجتے طبل جنگ کی آواز مدھم کیسے ہوئی؟ کس نے مودی سرکار کی ایسی ٹیوننگ کی ہے کہ پاکستان پر جہاں چاہو، جب چاہو، جیسے چاہو حملے کی بھارتی فوج کو اجازت دینے والوں کو ہوش کے ناخن لینا پڑگئے۔
بےشک بھارت کو سمجھانے میں سب سے اہم کردار امریکا کا ہے، اس کے باوجود کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کو پندرہ سو سال پرانا مسئلہ قرار دے کر اور یہ کہہ کر کہ دونوں ملک خود ہی مسئلہ حل کرلیں گے، دنیا کو حیران کردیا تھا کہ آخر جو جنگ رکوا سکتا ہے وہی اس قدر بے خبر اور بے پرواہ کیوں ہے۔
درحقیقت امریکا اس لیے عظیم نہیں ہے کہ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہیں بلکہ اس لیے عظیم ہے کہ وہاں ایک نظام ہے جو چیزوں کوغلط ہونے سےپہلے روکنے کے لیے حرکت میں آتا ہے یا اگر کسی وجہ سے غلط ہوجائیں تو انہیں سدھارنے کے لیے پوری طرح فعال ہوجاتا ہے۔
اس کا واضح اظہار امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی بھارتی ہم منصب جے شنکر کو بروقت ٹیلےفون کالز سے سامنے آیا جس میں انہوں نے زور دیا کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور جنوبی ایشیا میں امن اور سلامتی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے بھی رابطہ کیا، یہی بات دہرائی اور ساتھ ہی 22 اپریل کو پہلگام میں ہوئے حملے کی مذمت کی ضرورت پر زور دیا، دونوں نے یہ عزم بھی دہرایا کہ گھناؤنے تشدد کے واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔
پاکستان پہلے ہی پہلگام میں ہوئی دہشتگردی کی مذمت کرچکا ہےاور واقعے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کرچکا ہے۔سفارتی لحاظ سے دیکھا جائے توپاکستان سے محض تاکید کی گئی ہے کہ تحقیقات میں جو تعاون کی بات کی گئی ہے اس پر قائم رہے، اصل لگام بھارت ہی کو ڈالی گئی ہے۔
پہلگام حملے سے ایک روز بعد میری خطے کے ایک اہم سفارت کار سے ملاقات ہوئی۔ توقع کے عین مطابق پہلا سوال انہوں نے مجھ سے یہی پوچھا کہ جنگ ہوگی یا نہیں؟ میں نے کہا کہ مکمل جنگ کی صورتحال تو ناممکن ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ جس طرح مودی سرکار نے بغیر ثبوت الزام پاکستان پر دھر دیا ہے وہ کسی مہم جوئی پر نہ اُتری تو ملک میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔
سفارت کار کا نام میں سفارتی آداب کےتحت ظاہر نہیں کررہا۔ یہ ضرور کہوں گا کہ انہیں یقین تھا کہ جنگ کی نوبت نہیں آئےگی۔ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ پاکستان اس واقعہ میں ملوث نہیں ہوسکتا۔چند وجوہات جو انہوں نے بتائیں،وہ پھر سہی۔
جو میں نے کہیں وہ بھی پھر کبھی سہی تاہم میری ایک دلیل یہ تھی کہ جس قدر مشکلات سے پاکستان نے ڈوبی معیشت کا نکالا ہے، یہ کرشمہ ہے۔ پاکستان کسی بھی جارحیت میں پہل کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کیونکہ اب وقت آیا ہے کہ اُڑان پاکستان پروگرام واقعتاً اڑان بھرے اور پاکستان خطے کے توانا ممالک میں شامل ہو۔
یہ الگ بات کہ جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریگا۔
میرے نزدیک اس اہم ایشو میں دنیا کی ایک اہم قوت کی پوزیشن ایسی نہیں تھی کہ وہ بھارت کو جنگ سے روکے تاہم سعودی عرب، ایران اور روس اس پوزیشن میں ہیں کہ بھارت کو سمجھائیں کہ بنا ثبوت مہم جوئی خطے میں امن اور استحکام کے لیے مناسب نہیں ہوگی۔ جس بات پر ہم دونوں متفق تھے وہ یہ کہ امریکا نے کردار ادا کیا تو جنگ کے بادل ضرور چھٹ جائیں گے۔
اس کی دو وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ امریکا سپر پاور ہے اور بھارت کا اہم ترین اتحادی بھی۔ دوسرے یہ کہ بھارتی حکومت خود امریکا میں دہشتگردی میں ملوث رہی ہے۔
بائیڈن دور کے اواخر میں امریکا نے بھارتی حکومت کے ملازم وکاش یادو پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ خالصتان تحریک کے سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کے امریکا میں قتل کی ناکام سازش میں ملوث ہے۔ایک اور مشتبہ ملزم نکھل گپتا کوالزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکا بھی لایا جا چکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکا میں امریکی کو قتل کرنے کی سازش میں نئی دہلی ملوث ہو تو کیا پہلے بائیڈن یا اب ٹرمپ انتظامیہ مودی سرکار پر دہشتگردی کا الزام لگا کر بھارت پر حملہ کردے؟
امریکا میں تو معاملہ ابھی الزام تک محدود ہے، کینیڈا میں تو بھارت کی جانب سے دہشتگردی کے واضح اور ٹھوس ثبوت کینیڈین حکومت کے پاس موجود ہیں۔ جن میں برٹش کولمبیا کے علاقے سرے میں گوردوارے کے سربراہ ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی شامل ہے۔ وہ بھی خالصتان تحریک کے روح رواں تھے۔
کینیڈا کے سابق وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا تھا کہ ان کے پاس بھارت کیخلاف خفیہ طور پر معلومات جمع کرنے کی تکنیک، جنوب ایشیائی کینیڈین کو زبردستی ہدف بنانے اور قتل سمیت ایک درجن سے زیادہ دھمکیوں اور پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
بھارت کی خواہشات کے برعکس اس بار کینیڈا کے انتخابات میں کنزریٹو پارٹی کو شکست ہوئی اور جسٹن ٹروڈو ہی کی لبرلز جماعت ایک بار پھر برسر اقتدار آئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایک ملک کسی دوسرے ملک میں دہشتگردی میں ملوث ہو اور اسکے ٹھوس ثبوت بھی ہوں تو سب سے پہلے کینیڈا کی ٹروڈو حکومت کو نئی دہلی پر بموں کی برسات نہیں کرنا چاہیے تھی؟ یا نئے وزیراعظم مارک کارنی کو عہدے کا حلف لینے کے بعد پہلا حکم بھارت پر چڑھ دوڑنے کا صادر نہیں کرنا چاہیے؟
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر امریکا اور کینیڈا نے ثبوت ہونے کے باوجود بھارت پر حملہ نہیں کیا تو بغیر ثبوت بھارت کو پاکستان پر حملے کی دنیا اجازت دے گی کیسے؟ یہ توجنگل سے بدتر صورتحال نہیں ہوجائےگی؟
اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ نائب وزیراعظم اسحق ڈار جو اب تک اپنے سابق کردار یعنی وزیر خزانہ کی حیثیت سے مانے جاتے تھے، کامیاب سفارتکاری کی وجہ سے وہ منجھے ہوئے وزیر خارجہ بھی ثابت ہوئے ہیں۔ اس میں زیرک وزیراعظم شہباز شریف اور غیرمعمولی جرات مند آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اس سے کہیں زیادہ کاوشیں ہیں جو امریکا، اقوام متحدہ، سعودی عرب سمیت مشرق وسطی کے ممالک، ایران اور چین سب ہی یک آواز ہیں کہ بھارت جنگی جنون سے باز رہے۔
ایک سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ جنگ اس لیے بھی کسی کے مفاد میں نہیں کہ اگر بھارت کو نہ روکا گیا تو خطہ کی سیاست اور سفارتکاری کا انداز ہمیشہ کے لیے بدل جائے گا کیونکہ یہ طے ہے کہ کون کس کا کتنا ساتھ دے گا۔