30 مئی ، 2025
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انکشاف ہےکہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر ملک میں پابندی عائد ہے اور ابھی تک اس کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ حکومت نے کرپٹو کرنسی کونسل قائم کر کے اس پر ابتدائی کام کا آغاز کیا ہے تاہم کرپٹو کرنسی کے کاروبار کےلیے قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کی ضرور ت ہوگی،تاہم کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کرپٹو کونسل ہی تفصیلات بتا سکتی ہے،
سیکرٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر پاکستان میں پابندی ہےاور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، کرپٹو کونسل وزیراعظم کے ایگزیکٹوآرڈر پر قائم کی گئی ہے، وزیر خزانہ کونسل کے سربراہ ہیں جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی بلال بن ثاقب کونسل کے سی ای او ہیں، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی کی اس میں نمائندگی ہے، مجھے اس قابل نہیں سمجھاگیا کہ کرپٹو کونسل کا ممبر بنایا جاتا۔
اسٹیٹ بینک کے ایگزیکٹو ڈائر یکٹر سہیل جواد نے کمیٹی کو بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے کرپٹو اور بٹ کوائن پر کرپٹو کونسل کو اپنی سفارشات دی ہیں تاہم اس کےلیے ریگولیٹری فریم ورک ہونا چاہیے ، انہوں نے کہا کہ ابھی تک دنیا میں صرف ایک ملک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دی گئی ہے تاہم وہ بھی اپنے فیصلے کو واپس لے رہے ہیں۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئر پرسن ایم این اے نفیسہ شاہ کی زیر صدارت ہوا ، ارکان کمیٹی نے کرپٹو کرنسی کاروبار کی قانونی حیثیت نہ ہونے پر تحفظات کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ ملک میں کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری جاری ہےاور اس میں بہت زیادہ فراڈ بھی ہو رہے ہیں۔
رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ کرپٹو کرنسی سے منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری ہورہی ہے، حکومت کو اس حوالے سے آگاہی مہم چلانی چاہیے جبکہ مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ کرپٹو کرنسی میں لوگ سرمایہ کاری کر رہےہیں، اس میں بڑا رسک ہے۔ شہرام خان بولے سنا ہے حکومت کرپٹوکرنسی میں ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کررہی ہے۔
قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں وزیر خزانہ ، کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال ثاقب سمیت دیگر ممبران کوتفصیلی بریفنگ کےلیے اجلاس میں بلا لیا ہےجبکہ کرپٹو مائننگ کے لیے 2000 میگاواٹ بجلی مختص کرنے سے معاملے پر سیکرٹری پاور کو بھی آئندہ اجلاس میں طلب کیاگیا ہے۔
علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمو د لنگڑیال نے بتایا کہ ٹیچر سے لیے گئے رییبٹ کو واپس بحال کر رہے ہیں، گزشتہ برس کیے گئے فیصلے کو واپس لے لیاگیا ہے ، اور اس کو آئندہ فنانس بل کا بھی حصہ بنادیا جائے گا۔
بعض ارکان کمیٹی نے انکم ٹیکس کی شق 99 ڈی پر بھی اعتراض کیا جس کے تحت بینکوں سے ونڈ فال کے طور پر 29ارب روپے وصول کیے گئے، چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ یہ صرف بینکنگ کمپنیوں کےلیے ہے جنہوں نے روپے کی قدر میں اضافے کے دوران بہت زیادہ منافع کمایا۔
کمیٹی کو مرزا ختیار بیگ نے بتایا کہ کراچی کے ایک ریسٹورینٹ کے اکاؤنٹ سے ایف بی آر نے 10کروڑ روپے نکال لیے اور اکاؤنٹ بھی منجمد کردیا ، کمیٹی نے ایف بی آر کو اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔
قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایران سے اربو ں روپے کا پیٹرول اسمگل ہوتا ہے جس سے پیٹرولیم لیوی کی مد میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بلوچستان میں 400کسٹم اہلکار تعینات ہیں، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں تاہم وہاں دوسری قانون نافذکرنیوالی ایجنسیاں بھی ہیں۔ عمرایوب خان نے کہا کہ ایف بی آر سمگلنگ روکنے کے لیے اپنے مانیٹرنگ کے نظام کو بہتر بنائے۔