18 مارچ ، 2013
اسلام آباد … گھوسٹ اسکولز کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم اپنے بچوں پر کتنا ظلم کرتے ہیں، قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے، عدالت نے تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرارز کو آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے گھوسٹ اسکولز کیس کی سماعت کی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے وفاقی دارالحکومت کے اسکولز پر رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے 3 ماڈل اسکولز پر بحریہ ٹاوٴن کا قبضہ ہے جبکہ بحریہ انکلیو کی وجہ سے 3 سرکاری اسکول بند پڑے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں تاہم بعض کی حالت انتہائی خراب یا قبضہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب اسکول بھی بحریہ ٹاوٴن کو دینا شروع کر دیئے ہیں، وفاقی حکومت کی ناک کے نیچے اسکولزکا یہ حال ہے، وزرات کیڈ کیا کر رہی ہے، کیوں نوٹس نہیں لیا گیا۔ عدالت نے اسلام آباد کے کمشنر، ڈی جی ایجوکیشن سمیت دیگر متعلقہ حکام کوڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی رپورٹ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا یہ سب بتائیں کہ اسکولز کا قبضہ چھڑانے اور ان کی حالت بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات کئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق میں یہ ہو رہا ہے تو باقی ملک میں کیا ہو گا، لگتا ہے عدالت کو قبضہ چھڑا کر دینا پڑے گا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ صوبے میں کوئی گھوسٹ اسکول نہیں، 36 غیر فعال ہیں جنہیں فعال بنانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ان کے صوبے میں 227 گھوسٹ اسکول ہیں جن میں سے زیادہ تر بااثر افراد کے ذاتی استعمال میں ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سندھ کے دیہات میں کبھی بچوں کو اسکول جاتے نہیں دیکھا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایاکہ صوبے میں 58 ہزار اسکول ہیں گھوسٹ اسکولز کی ابھی رپورٹ نہیں آئی، 266 اسکولز پر قبضہ اور تجاوزات ہیں۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں 28 ہزار 510 اسکول ہیں، مزید تفصیلات ابھی نہیں ملیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ تمام ہائی کورٹس کے رجسٹرار آئندہ سماعت پر گھوسٹ اسکولز سے متعلق رپورٹ پیش کریں، مزید سماعت 8 اپریل کو کی جائے گی۔