25 اپریل ، 2013
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…برطانوی جریدہ” اکنامسٹ“ اپنی تازہ اشاعت میں لکھتا ہے کہ پاکستان کے انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی کے واضح امکانات ہیں اور وہ تیسری مدت کے لئے وزیر اعظم منتخب ہو سکتے ہیں۔ق لیگ عملاً ختم ہو چکی ہے، پیپلز پارٹی اپنے گزشتہ دور حکمرانی میں مایوس کن کار کردگی کی وجہ سے 60سیٹیں ہی جیت پائے گی۔ عمران خان صرف 30سیٹیں جیت پائیں گے۔ امکان ہے کہ نواز شریف متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت سے واپس آجائیں۔ متحدہ پختگی اور اعتدال پسندی کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی اہم تبدیلیوں میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نومبر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔نوازشریف کا کہنا ہے کہ وہ سب سے سینئر جنرل کو اس عہدے کے لئے قبول کرلیں گے۔ زرداری جن کی ستمبر میں عہدہ صدارت کی مدت پوری ہو رہی ہے،انکی تبدیلی کے لئے نواز شریف کئی ارکان پر اثر اندا ہوں گے ، انہیں اس بات میں بھی دلچسپی ہوگی کہ نیا چیف جسٹس آف پاکستان کون ہوگا ۔افتخار چوہدری دسمبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں یہ انتخابات پاکستان کی سیاسی تبدیلیوں کا آغاز ہے۔ جریدہ اپنی تفصیلی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ جلا وطنی اور حزب اختلاف میں 14برس کے بعد میاں نواز شریف کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے امکان واضح ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں انتخابات کیلئے پو سٹر لگائے اور ٹی وی پر اشتہارات بھی چلائے جا رہے ہیں لیکن انتخابی ریلیاں چند سیاستدان نکال پارہے ہیں۔ پاکستان کا انتخابی ماحول زیادہ متاثر کن نہیں، طالبان کی طرف سے دھمکیوں اور 34افراد کے قتل کے بعد عوامی اجتماع میں حوصلہ شکنی پید اہورہی ہیں۔ اس کے باوجود انتخابات کے تاریخی ہونے کا امکان ہیں۔ پر تشدد واقعات کے باجود پاکستان میں جمہوری سفر رواں دواں ہیں۔ انتہائی زیادہ ٹرن آوٴٹ بلکہ ریکارڈ توڑ ہو سکتا ہے۔پہلی بار نوجوان ووٹر پر جوش نظر آتے ہیں۔2008کے مقابلے دس فی صد زیادہ ٹرن آوٴٹ ہونے کا امکان ہے۔ان انتخابات میں دھاندلی یا دخل اندازی ہونے کے بہت کم امکان ہیں اور منصفانہ انتخابات کی توقع ہے۔سروے بتا رہے ہیں کہ نواز شریف تیسری مدت کیلئے وزیراعظم اور شہباز شریف پنجاب کے آئندہ وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائیں گے۔شریف برادران کا ریکارڈ بہترین ہے لاہو ر میں بس نظام، ڈینگی کا خاتمہ اور نوے میں موٹر وے ان کے مقبول منصوبے ہیں کاروباری برادری ان کو پسند کرتی ہیں۔ دیگر جماعتوں کی ناکامی بھی ان کو فائدہ دے رہی ہے۔اس سے الگ ہونے والی مسلم لیگ ق تقریباً ناکام اور ختم ہو چکی ہے۔ وہ جنرل مشرف کی ایک گاڑی کے طور پراستعمال ہوئے۔ مشرف اپنی وطن واپسی پر ہی ناکامی سے دو چار ہوگئے، انکی وطن واپسی ،انتخابی عمل سے باہر ،ججز کیسز میں گرفتاری اورگھر میں نظر بندی جیسے تمام عوامل شریف بردارن کے لئے پر سکون لمحات ہیں۔قومی سطح پر پیپلز پارٹی کمزور ہے، ان کی پانچ سالہ دور حکومت کی کار کردگی مایوس کن ہے۔ نواز لیگ نے فرینڈلی اپوزیشن کا اصول قائم رکھا، اور پی پی پی حکومت کے خاتمے کے کسی بھی غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بنے، اقتصادی اصلاحات میں ناکامی، بجلی کا بحرا ن مہنگائی اور پر تشدد واقعات نے پیپلز پارٹی کو ناکامی سے دو چار کیا۔ صدر زرداری کو الگ تھلگ اور غیر موٴثر حکمران سمجھا گیا، صدر ہونے کی وجہ سے انہیں انتخابی مہم سے روک دیا گیا۔ پیپلز پارٹی حقیقت میں بغیر رہنما کے جماعت ہے۔اس جماعت کا چیئر مین ان کا 24سال کابیٹا ہے جو قتل کیے جانے کے خوف سے کسی بھی ووٹر کو نہیں ملتا۔اس کے باوجود پیپلز پارٹی ختم نہیں ہوگی،272سیٹوں میں60کے قریب سیٹیں جیت لے گی اور تقریباً یہ تمام سندھ کی سیٹیں ہوں گی،دیہی ووٹر غربت کی وجہ سے وفادار ہیں انہیں ایک ہزار روپے ماہانہ بھٹو کے نام پر دیے جاتے ہیں۔شریف براداران کیلئے صرف عمران خان چیلنج ہوں گے۔ وہ شہری پنجاب اور کے پی کے میں مضبوط نظر آتے ہیں۔عمران خان بدعنوان نہیں،ٹیکس دینے والے اور ان کی سیاسی جماعت میں جمہوریت ہے۔ لیکن عمران خان کی کامیابی کے امکانات واضح نہیں۔انہوں نے پی پی پی اور ن لیگ سے اتحاد نہ کرنے کا عہد کیا اور کسی جماعت سے سیٹ ایڈجسٹ منٹ بھی نہیں کی ۔کئی تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان صرف تیس کے قریب سیٹیں جیت پائیں گے۔