08 مارچ ، 2012
اسلام آباد…مہران بینک اسکینڈل سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے۔جس کے ایک مرکزی کردارمرزااسلم بیگ بھی ہیں،اسکینڈل نے کئی سالوں کے بعد فوج کی سیاست میں مداخلت اور ایک سیاسی اتحاد کی تشکیل کیلئے کروڑوں روپے تقسیم کرنے کا معاملہ کھول دیا ہے۔مرزا اسلم بیگ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔جنرل ریٹائرڈ مرزا اسلم بیگ 2 اگست 1931 میں بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے اعظم گڑھ میں پیداہوئے۔ 1952میں آرمی کی انفنٹری بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوئے۔1978 میں میجرجنرل کے عہدہ پر ترقی پائی اوربعدمیں چیف آف جنرل سٹاف کے عہدہ پر تعینات رہے۔مارچ 1987 میں فورا سٹار جنرل کے عہدہ پر ترقی دی گئی اوروائس آرمی چیف کاعہدہ ملا۔17 اگست 1988 میں جنرل ضیاالحق کے فضائی حادثے میں مارے جانے کے بعد انہوں نے چیف آف آرمی ا سٹاف کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔بطورآرمی چیف ان پرسب سے بڑاالزام مہران بینک اسکینڈل کالگا۔جس میں انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اورڈی جی آئی ایس آئی اسددرانی کے ساتھ مل کر اسلامی جمہوری اتحادبنوانے کیلئے ایک ارب 48 کروڑ روپئے لئے۔ سیاسی کرپشن کے اس دور میں سیاست دانوں نے توکم لیکن چند فوجی جرنیلوں نے خوب فائدے اٹھائے اور سیاست دانوں میں 34 سے 40 کروڑروروپے تقسیم کرنے کے بعد ایک ارب روپے سے زائد رقم اپنے پاس رکھ لی۔ تاہم جنرل اسلم بیگ اوردیگرساتھی جرنیلوں نے کیاکچھ کمایا؟ کوئی نہیں جانتا۔سولہ اگست 1991 کوریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی جنرل اسلم بیگ کا39سالہ کیرئراختتام پزیرہوگیا۔جس کے بعدانہوں نے فرینڈز کے نام سے ایک غیر سیاسی تھنک ٹینک بنایا جس نے مختلف ملکوں سے این جی او سیکٹر میں ریسرچ کیلئے کروڑوں روروپے کے فنڈزحاصل کئے۔ جنرل اسلم بیگ کی فوجی خدمات پر انہیں ستارہ بسالت،ہلال امتیاز ملٹری اور نشان امتیاز ملٹری بھی دئے گئے۔ تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت کے خلاف انہوں نے کروڑوں روپے بانٹے اسی جماعت نے انہیں تمغہ جمہوریت سے بھی نوازا۔