24 جولائی ، 2013
کراچی…محمد رفیق مانگٹ…امریکی اخبار”واشنگٹن پوسٹ“ لکھتا ہے کہ سی آئی اے نے افغانستان میں اپنے خفیہ اڈے بند کرنے شروع کردیے ہیں۔اوباما انتظامیہ کے سینئر عہدیدار نے کہا کہ افغانستان اور اسلام آباد کے ساتھ امریکی فوجیوں کی تعداد کی بات چیت میں ملٹری ڈرونز فلائیٹس پاکستان منتقل کرنے کی تجویز دی جاسکتی ہے۔اسلام آباد کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کو ڈرون حملوں کا اختیار دیا جاسکتا ہے کہone shot you have اس کو نشانہ بناوٴ جس کو آپ چاہتے ہو،حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے ڈرون حملوں کی رضامندی کا مسئلہ مشکوک تو ہے لیکن ناممکن نہیں ۔اسلام آباد نے باضابطہ طور پر ڈرون پروگرام پر اپنے تعاون کا اعتراف کبھی نہیں کیا ہے۔امریکی فوج اور سی آئی اے اہلکاروں کی واپسی کے باوجود پاکستان سمیت دیگر علاقوں میں کئی سالوں تک ڈرون حملے جاری رہے گے،اسپیشل آپریشن کے سنیئر اہلکار کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے آپریشنز دس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک جاری رہیں گے۔سی آئی اے نے کابل میں نئے چیف اسٹیشن کی تعیناتی کی ہے جو اس خطے میں پہلے کبھی تعینات نہیں رہا۔سی آئی اے ہیڈکوارٹر میں ملٹری پوزیشنیوں میں بھی تبدیلی کی جارہی ہے۔کابل کے علاوہ بگرام ،قندھار، مزارشریف ،جلا ل آباد اور ہیرات سے سی آئی اے کے اہلکاروں کو واپس بلانے کی منصوبہ بندی ہے ،بند ہونے والے بیسز میں پاکستانی سرحد کے ساتھ سی آئی اے وہ بیس بھی شامل ہے جو قبائلی علاقے میں ڈرونزآپریشن کی نگرانی کرتا ہے۔ڈرون آپریشن کے لئے فوجیوں کی تعداد بھی ایڈ منسٹریشن کی مشاورت میں شامل ہے۔پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد کو پہلے ہی کم کیا جا چکا ہے اس سال صرف سترہ حملے کیے گئے جب کہ2010میں117حملے کیے گئے۔ امریکی انتظامیہ کے سینئر اہلکا ر کا کہنا ہے 2014کے بعد افغانستان اور پاکستان کی نسبت شمالی افریقا اور یمن کے خطرات زیادہ ہوں گے ،ان کے وسائل اس کا مقابلہ نہیں کرپائیں گے۔حکام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ2014کے بعد بھی دنیا کا سب سے بڑا سی آئی اے کا اسٹیشن کابل ہی رہے گا اور پاکستان کے قبائلی علاقوں پر گشت کے لئے ڈرون کا ایک بیڑا بھی افغانستان میں موجود رہے گا۔اخبار لکھتا ہے کہ افغان خطے میں سی آئی اے کی موجودگی میں کمی اس بات کی عکاسی ہے کہ ایجنسی اپنے روایتی کام انٹیلی جنس سروس پر توجہ دے گی جو سرد جنگ سے اس خطے میں ایک انسداد دہشت گردی فورس میں تبدیل ہو چکی تھی اور اس کی اپنی جیلیں، پیرا ملٹری ٹیمیں اور مسلح ڈرونز تھے۔سی آئی اے کی منتقلی ایسے اہم موڑ کوبھی واضح کرتی ہے کہ ایجنسی اپنے وسائل کسی دوسرے خطے میں منتقل کر رہی ہے۔افغانستان میں سی آئی اے کی تنصیبات کی تعداد کم کرنے کایہ ابتدائی منصوبہ ہے ، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ دو برسوں میں سی آئی اے کے بیسز کوایک درجن سے کم کرکے تقریباً چھ تک کردیا جائے گا ۔سینئر امریکی انٹیلی جنس اور انتظامیہ حکام کا کہنا ہے کہ خطے میں سی آئی اے کی کمی پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکی ہے،اب افغان خطے میں القاعدہ ے امریکا کو زیاد ہ خطرات نہیں رہے لہذا اس لحاظ سے یہاں امریکی جاسوسی اقدامات کا تناسب زیادہ ہے۔مشرق وسطی کی نگرانی اور شام میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی اب سی آئی اے کو القاعدہ سے بڑے چیلینجز دکھائی دیتے ہیں۔ سی آئی اے کے نئے ڈائریکٹر جان برینن اس خواہش کا اظہار کرچکے کہ ایجنسی روایتی جاسوسی کاموں پر توجہ بحال کریں گی۔ اوباما کے فیصلے پریہ انحصار کرے گا کہ 2014کے بعد افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کتنی ہوگی اور سی آئی اے کے حجم میں کتنی اور کب کمی کرنا ہے۔ اگلے سال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد63ہزار سے کم ہوکر10ہزار ہونے کی توقع ہے تاہم کرزئی کے ساتھ بڑ ھتی ہوئی مایوسی سے زیرو آپشن کا اشارہ بھی دیا جا رہا ہے۔سی آئی اے کو کرزئی کے ساتھ گفت و شنید کا منفرد مقام حاصل ہے کرزئی برملا ایجنسی سے کئی سالوں سے پیسوں کے تھیلے وصول کرنے کو تسلیم کرتے ہیں۔سی آئی اے نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی کو بھاری بجٹ اور تربیت فراہم کی ہے اور وہ اس ناطے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔افغانستان میں سی آئی اے کے ایک ہزار آفیسر سے تعداد میں خاطر خواں کمی پہلے کی جا چکی ہے۔سی آئی اے نے افغانستان سے واپسی کی منصوبہ بندی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا،وائیٹ وٴس یمن اور شمالی افریقا میں اپنے وسائل کو منتقل کرنے کا حامی ہے کیونکہ وہاں القاعدہ مضبو ط ہو رہی ہے۔