02 ستمبر ، 2013
لاہور…ہجر و انتظار،دکھ، تنہائی اور اداسی کے عکاس شاعراحمد راہی کی آج گیارہویں برسی ہے،احمد راہی نے 200سے زائدارود اورپنجابی فلموں کیلئے ایک ہزار کے قریب نغمے تخلیق کیے۔سیکڑوں سدا بہارگیتوں کے خالق احمد راہی کا اصل نام غلام احمدتھا،وہ 12نومبر1923ء کوبھارتی پنجاب کے شہر امرتسرمیں پیداہوئے، شاعری کاشوق اوائل عمری سے ہی تھا، سعادت حسن منٹو، ساحر لدھیانوی، ابن انشاء اور کرشن چندر جیسے دوستوں کی محفلوں نے راہی کی صلاحیتوں کواوربھی نکھاربخشا، وہ1951ء سے1953ء تک معروف ادبی ماہنامہ سویرا کے ایڈیٹربھی رہے۔پاکستان میں فلم سازی شروع ہوئی تواحمد راہی نے سعادت حسن منٹو کی فلم’بیلی‘کے لئے گیت لکھ کراپنے فلمی کیریئر کا آغازکیا،اس کے بعد انہوں نے پرواز، مجرم، پتن، ماہی منڈا، یکے والی اورسردار جیسی کئی فلموں کیلئے گیت لکھے، فلم چْھومنترکیلئے ان کا لکھا ہواگیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔احمدراہی نے تقریبا ًایک درجن اردو فلموں کیلئے بھی نہایت خوبصورت نغمے تحریر کئے، ہدایت کارایس سلمان کی فلم باجی کے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈقائم کئے، میڈم نورجہاں اور نسیم بیگم کی آواز میں گائے ہوئے یہ گیت آج بھی سننے والوں کواپنے سحر میں جکڑلیتے ہیں۔ رومانوی داستانوں ہیررانجھا، مزراصاحباں اورسسی پنوں کے نغمات کے علاوہ اسکرپٹ بھی احمدراہی کے قلم ہی کاکمال تھے۔ انہوں نے موسیقار خواجہ خورشیدانور کے ساتھ انتہائی معیاری کام کیا، فلم مرزا جٹ ہویا سسی پنوں یاپھرلولی وڈکی سدا بہار فلم ہیر رانجھا،ان سب کے گیت احمدراہی کے ہی تخلیق کردہ ہیں۔حکومت پاکستان نے احمد راہی کوتمغہ حسن کارکردگی سے نوازا،اس کے علاوہ انہوں نے نگار،گریجویٹ اور بولان سمیت درجنوں ایوارڈز بھی حاصل کئے، ترنجن، نمی نمی وا اور رْت آئے رْت جائے۔ ان کے تین شعری مجموعے ہیں۔ ترنجن کوملک گیر شہرت ملی۔احمد راہی نے اپنی زندگی کے چالیس سال فلم نگرکودیئے،انہوں نے آخری گانا 1998ء میں پنجابی فلم (نکی جئی ہاں)کیلئے لکھا، جس پرانہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔یہ صحیح ہے کہ احمدراہی نے کم لکھا، مگرجتنابھی لکھا وہ کئی دیوانوں پہ بھاری ہے، احمد راہی جدیدشعراء کی صف میں شامل ہیں،ان کے سدابہارگیت جب تک کانوں میں رس گھولتے رہیں گے، ان کانام بھی زندہ رہے گا۔