22 مارچ ، 2012
اسلام آباد وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 7رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے جہاں وزیر اعظم کے وکیل اعتزاز احسن دلائل دے رہے ہیں۔ اپنے دلائل میں اعتزاز احسن نے موٴقف اختیار کیا کہ جن ججز نے ٹرائل شروع کیا وہ سماعت نہیں کر سکتے، موجودہ بنچ نے نوٹس جاری کیا اور فرد جرم عائد کی لہذا اب توہین عدالت کا معاملہ دوسرے بنچ کو بھیجا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ 17رکنی بینچ نے این آر او کا فیصلہ دیا،تعصب کے نکتے کو اس قدر بڑھایا گیا تو مقدمے کی سماعت نہیں ہو سکے گی۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہمعاملہ پسند یا نا پسند کا نہیں، یہ نہیں کہہ رہا کہ کوئی جج متعصب ہے معاملہ یہ ہے کہ جو جج کارروائی شروع کرتا ہے تو معاملے کی سماعت نہیں کرتا، آرٹیکل10اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ تعصب نہیں، اس طرح شفاف ٹرائل کا مطالبہ پورا نہیں ہوتا۔ اس سے تھوڑی دیر قبل اپنے دلائل شروع کرنے پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ میرے دلائل کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، میری پارٹی کو ججز اور بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 10کے تحت جن ججز نے توہین عدالت کیس شروع کیا ہو، وہ ججز نا اہل قرار نہیں دے سکتے۔جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت میں جج شو کاز نوٹس جاری کرتا ہے، پوچھتا ہے کہ کیوں نہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے، یہ کارروائی نہیں جس کی آپ نشاندہی کر رہے ہیں، یہ غلط مطلب ہے کہ سزا دینے کیلئے عدالت کا ذہن بن چکا۔ اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ کل میں نے وزیراعظم کے پیر اور گدی نشین ہونیکا ذکر کیا اور میڈیا نے ذرا سی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا، وزیراعظم کے پیر یا گدی نشیں ہونے پر رعایت نہیں مانگ رہا، توہین عدالت آرڈیننس2003 آئین کے آرٹیکل 10اے سے متصادم ہے۔ اس پر جسٹس سرمد جلا عثمانی نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں ہم اسے کالعدم قرار دے دیں، جسٹس عجاز چودھری نے ریمارکس دیئے کہ یہاں عدالتی کام ہوتا ہے، ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ یہ باتیں سنیں، یہ وضاحت باہر میڈیا میں کریں۔