24 اکتوبر ، 2013
لاہور…اردو ادب میں افسانوی حیثیت رکھنے والی عصمت چغتائی نے برصغیر کے مرد کی بالادستی والے سماج میں خواتین کے مساوی حقوق کا علم اٹھایا اور اپنی تحریروں سے اسے تحریک بنا ڈالا، عصمت چغتائی کی بائیسویں برسی پر ان کی ادبی اور سماجی خدمات پر نظر ڈالتے ہیں۔ بیسویں صدی کے وسط میں جب ہر سو سعادت حسن منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے ادیبوں اور فسانہ نگاروں کا طوطی بول رہا تھا، ایک اور نام برابر آن کھڑا ہوا، یہ نام عصمت چغتائی کا تھا، اگست 1915ء میں بھارتی صوبے اترپردیش میں آنکھ کھولنے والی عصمت چغتائی نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو اپنے اطراف عورت کو محکوم، محروم اور مظلوم پایا، اسے مرد کے برابر ثابت کرنے کیلئے قلم اٹھایا۔ ان کے افسانے اور مختصر کہانیاں ایک تحریک ہی نہیں اردو ادب کا ستون بھی قرار پائیں۔ انہوں نے تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں، ناولوں میں ضدی، ٹیڑھی لکیر، اِک قطرہ خون اور بہروپ نگر بہت مقبول ہوئے۔ افسانہ ’لحاف‘ فحش نگاری کے الزامات ہی ساتھ نہ لایا، لاہور کورٹ میں مقدمہ بھی چلا، مگر کئی ادبی اعزازات کی حق دار بھی ٹھہریں۔ عصمت چغتائی کی زندگی ادبی کارناموں ہی سے نہیں سجی ہوئی، ہنگامے، تنازعے، مقدمے اور بدنامیاں بھی رچی بسی ہیں، برصغیر کی اس بڑی ادیبہ نے 24اکتوبر 1991ء کو وفات پائی تو زندگی کی طرح موت بھی متنازع اور ہنگامہ پرور ثابت ہوئی۔