انٹرٹینمنٹ
25 اکتوبر ، 2013

اپنے گیتوں سے سحر قائم کردینے والے ساحر لدھیانوی کی برسی

اپنے گیتوں سے سحر قائم کردینے والے ساحر لدھیانوی کی برسی

کراچی…ساحر لدھیانوی کی آج 33ویں برسی ہے۔ اس بے مثال شاعر نے لاتعداد غزلیں اورفلمی گیت بھی لکھے۔ استحصال زدہ طبقات سے ہمدردری نے ساحر لدھیانوی کو اشتراکیت کا ہمنوا بنایا۔ ناانصافیوں اور ناہمواریوں نے اس کے سیاسی اور سماجی شعور کو پختگی بخشی اور ساحر کا قلم فتح جمہورکی جدوجہد کیلئے وقف ہوگیا۔ ساحر کی مشہور ”نظمیں تم اپنا غم مجھے دیدو، جائیں تو جائیں کہاں، کہاں ہیں کہاں“ ہیں۔ ساحر لدھیانوی اپنی شاعری میں محنت کا استحصال برداشت کرتا ہے نہ عورت کی بے بسی کا۔ اس کے اشعار میں اس عورت کی چیخ بہت زورسے سنائی دیتی ہے جسے معاشرہ بار بار بکنے پر مجبور کرتا ہے۔ عورت کے موضوع پر ساحر کا کلام ”عورت نے جنم دیا مردوں کو“، ”کہو جی! تم کیا خریدو گے“ ہے۔ حسن پرست اور عاشق مزاج ساحر لدھیانوی نے شادی نہ کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ”کچھ لڑکیاں مجھ تک دیر سے پہنچیں اور کچھ لڑکیوں تک میں دیر سے پہنچا“ اس کا اظہار ان کے گیتوں”جسے توقبول کرلے، وہ ادا کہاں سے لاوٴں“، ”تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے“ سے ہوتا ہے۔ امرتا پریتم نے ساحر کو ٹوٹ کرچاہا۔ جی جان سے چاہا۔ ساحر امرتا کے دل کی آواز نہ سن سکا۔ امروز سے شادی کے بعد بھی امرتا پریتم اسے نہ بھول سکی۔ ایک بار امرتا کے بیٹے نے ماں سے سوال کیا۔ ”ماں کیا میں ساحر کا بیٹا ہوں“ امرتا نے جواب دیا ”کاش یہ سچ ہوتا“۔ ”کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے“، ”چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں“، ”تیراملنا خوشی کی بات سہی“، ”تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں“ جیسے شہرہ آفاق گیتوں کا تخلیق کار تلخیوں کی راکھ میں بجھنے والاساحر خود تو چلا گیا، اپنی پرچھائیاں چھوڑ گیا، ساحرلدھیانوی ہمیں جس صبح کی امید دلاتا رہا وہ صبح ابھی آئی تو نہیں لیکن آئے گی ضرور۔

مزید خبریں :