22 نومبر ، 2013
جامشورو…سندھ یونیورسٹی جامشورو کا کارنامہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئیں ،من پسند افرادکو لیکچرر کی پوسٹ دے دی گئی، سلورمیڈل حاصل کرنے والی طالبہ کو نظر انداز کر دیا گیا،طالبہ نے عدالت سے رجوع کر لیا۔سندھ یونیورسٹی جامشورو کی جانب سے 2009 میں لیکچرارکی دو آسامیوں کے لئے مقامی اخبار میں اشتہار دیا گیا۔ چار سال بعد خیال آیا تو چھ امیدواروں کو جنوری 2013 میں ٹیسٹ کے لئے بلایا گیا۔ انٹرویو اس سال جولائی میں لئے گئے، اگست میں جب نتائج کا اعلان کیا گیا تو پتہ چلا کہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔ حیدرآباد کے علاقے کوہسار کی رہائشی اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ کمیونی کیشن ڈیزائین میں تین سال سے بحیثیت ٹیچنگ اسسٹنٹ ذمہ داریاں انجام دینے والی سبین نعیم نے بھی لیکچرر کے لئے ٹیسٹ دیا اور سب سے زیادہ چوراسی نمبرحاصل کئے۔سبین کے مطابق اُن کے ساتھ 6 مزید افراد نے انٹریو ددیئے، جن میں سے تین اُمیدوروں ثمرین پروین نے 79 ، حشام الدین نے 75 اور رابیلہ نے صرف 52 نمبر حاصل کئے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ان تینوں کو نوکریاں دے دیں ، جبکہ سب سے زیادہ نمبر اور سلور میڈل حاصل کرنے والی امیدوار سبین نعیم کو نظر انداز کر دیا گیا۔سبین کا کہنا ہے کہ لیکچرار کی پوسٹ کا اعلان ہوا تھا ،اِس میں حصہ لیا اور چوراسی مارکس لئے اس کے بعد انٹریو ہوا جس میں کم سے کم مارکس لینے والوں کو رکھ لیا گیا۔یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نتائج سن کرمیرے پیروں سے زمین نکل گئی۔اُس نے بتایاکہ اس کا انٹریو بہت اچھاہوا تھا اور وہ اسی شعبے میں تین سال سے پڑھا رہی ہیں۔ سبین نے کمیونی کیشن ڈیزائین کے شعبے میں سلور میڈل بھی حاصل کیا ہے۔اُس نے کہاکہ انٹرویو میں مجھے نظر انداز کیا گیا،نہ ٹیسٹ کے اسکو پر غور کیا نہ اِس چیز کو غور کیا کہ میرا پورے کیر یئر میں فرسٹ کلاس کارکرگری ہے،نہ ہی اس چیز پر غور کیا گیا کہ سلور میڈلسٹ ہوں اور نہ ہی اس کو دیکھا گیا کہ میرا تین سالہ تجربہ ہے۔طالبہ نے اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔