01 دسمبر ، 2013
کراچی… اختر علی اختر…افسانے غیر معمولی صنف نہیں انہیں اہمیت دینے کی اشد ضرورت ہے ۔افسانہ کم نہیں چھپ رہا بلکہ اسے پڑھا کم جارہا ہے ۔ان خیالات کا اظہار صدر مجلس مسعود اشعر نے چھٹی عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے اور آخری روز کے پہلے اجلاس ”افسانہ ایک صدی کا سفر “ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے افسانہ نگاروں کی پہنچ پبلشروں تک نہیں اس امر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔اس رجحان کو آگے بڑھنا ہوگا کہ ادیب چھپے اور اسے پڑھا جائے ۔ادب عشق کا سود ا ہے ۔ مسعود اشعر نے کہا کہ اہم سوال یہ ہے کہ آج کا افسانہ کہاں کھڑا ہے اور دوسرا آج ہمارے انسانی رشتے بھی تبدیل ہورہے ہیں ۔ہمارے انسانی رشتوں کے روئیے بدلے ہیں کیا ہمارا افسانہ ہمارے موجود ہ معاشرے اور حالات کو فوکس کررہے ہیں ۔ہم سب کنفیوز ہیں ۔زاہد ہ حنا نے کہاکہ 1913ء میں شروع ہونے والا ہمارا ساد ہ اور معصوم افسانہ 19برس بعد شعلے اگلنے لگا۔جنگ عظیم اول و دوم کی خوں ریزیاں افسانے پر انداز ہورہیں ہیں ۔انگارے افسانہ کا رسالہ 1935ء میں شائع ہوا جو اس زمانے میں معیاری افسانوں پر مشتمل رسالہ ثابت ہوا ۔سجاد حیدر ،اسد محمد خان ،حسن منظر ،منٹو منظر عام پر آئے ۔غلام عباس کا افسانہ دھنک 1969ء میں آیا جس نے دھوم مچادی تھی ۔عصمت چغتائی کے لحاف نے برصغیر نے تہلکہ مچادیا۔اخلاق احمد نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اکیسویں صدی کے افسانہ نگار 20ویں صدی کے افسانہ نگاروں سے زیادہ چست اور زیرک ہیں ۔اس صد ی کے افسانہ نگاروں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے ۔اس کے ایک جانب سامراج اور دوسری طرف طالبان ہیں ۔جس سرزمین پر افسانہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔اس سرزمین پہ عدم مخالف برسرپیکار ہیں ۔شر کے مقابلے میں کبھی دین قوت ہوتا تھا خیر کی اب نہ دائیں خیر ہے کہ بائیں ۔خیر صرف لکھنے والوں کے قلم کی نوک پر ہے ۔اس صدی کا افسانہ نگار بے پنا ہ رویوں کے ساتھ آپ کو نظر آئے گا ۔اسے جہالت کی قوتوں کا مقابلہ بھی کرنا ہے اور ان کے ساتھ زند ہ بھی رہنا ہوگا ۔ڈاکٹر مصطفی حسین نے کہا کہ ڈنیش فکشن کو اردو کا رنگ دینا بہت مشکل امر ہے ۔اس زبان پہ بتدریج عبور حاصل کرنے کے بعد اشتیاق ہوا کہ ڈنمارک کے ادب کو ٹٹولا جائے تو ایک سے ایک بڑھ کر شہ پارہ سامنے آتا گیا۔ڈاکٹر آصف فرخی نے کہا کہ افسانہ ہمارے ذہنی و سماجی تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔فکشن کا مطالعہ سے یگانگت اور ہمدردی بڑھتی جارہی ہے ۔اور یہ عناصر ہمارے معاشرے سے کم ہوتے جارہے ہیں افسانے میں تناظر کی تلاش جاری ہے اور ہم وقفے وقفے سے افسانے میں تناظر کی کھوج میں ہیں۔محمد شاہد حمید کا کہنا تھا کہ حسن عسکری ،غلام عباس اور انتظار حسین نے بھی افسانوں کو تقویت بخشی پھر وہ افسانے کے نام پر تماشاہونے لگا تو منشایاد کا افسانہ بچ گیا ۔ہم تو اپنی محبتوں کا افسانہ لکھتے ہیں کوئی موضوع نہیں معلومات کیلئے تو مضامین لکھتے رہے ہیں ۔اس دور میں جدید افسانے کی درست سمت میری دانست میں تاحال متعین نہیں ہوسکی ہے ۔ممتاز ادیب علی حید ر ملک نے 21ویں صدی میں علامتی افسانہ کے بارے میں بتا یا کہ ملک میں مارشل لاء لگا تو علامتی افسانے لکھے گئے ۔بیدی کے ساتھ منٹو کا دور مکمل ہوجاتا ہے ۔انتظار حسین سے علامتی افسانوں کا نیا دور شروع ہوگیا ۔ہمارے یہاں ضیاء الحق کا تیسرا مارشل لاء علامتی افسانوں کا سبب بنا۔اس سے پہلے کے افسانہ نگار نے ایوب خان کی کوئی مخالفت نہیں کی ۔ضیاء الحق اس لئے بدقسمت حکمران تھے جن کے دور میں ادیبوں اور شاعر وں نے خوب کھل کر لکھا اور اس کے اثرات پوری دنیا میں پھیل گئے ۔