10 دسمبر ، 2013
کوئٹہ …کوئٹہ کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افتخار محمد چوہدری صوبہ بلوچستان بلکہ عدلیہ اور ملک کیلئے باعث افتخار بنے۔ افتخار محمد چوہدری نے 12دسمبر 1948ء کو کوئٹہ میں پولیس ڈی ایس پی چوہدری جان محمدکے گھر آنکھ کھولی۔ اسلامیہ اسکول سے میٹرک اور ڈگری کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد حیدر آباد میں ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی۔ 1974ء میں ڈسٹرکٹ کورٹ میں بطور وکیل پیشہ وارانہ زندگی آغاز کیا۔ 1976ء میں ہائی کورٹ اور 1985ء میں سپریم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے کام شروع کیا۔ ان کے ساتھی وکلاء کا کہنا ہے کہ افتخار محمد چوہدری نے بحیثیت وکیل بہت محنت کی۔ ہادی شکیل ایڈووکیٹ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے آفس کو ہم شعبہ حادثات کہتے تھے، رات کے 12بجے جاوٴ تو بھی کھلا ہے، 2بجے جاوٴ تو کھلا ہوتا ہے، صبح 7بجے بھی کھلا ہے، ایک کیس ہو، دس کیس ہوں،یا 20کیس ہوں ہم نے جب سے پروفیشن شروع کیا تو یہی دیکھا کہ چوہدری صاحب ہر کیس میں تیار ہوتے تھے اور کبھی یہ نہیں کہتے تھے کہ مجھے تاریخ دے دو، ہم سارا سار ادن تاریخ مانگتے ہیں۔ چوہدری افتخار محمد 1986ء میں بلوچستان بارایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے اور 1989ء میں ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے۔ نومبر 1990ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے 1993ء میں انہیں مستقل جج مقررکردیا گیا۔ 22اپریل 1999ء کو بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے جس کے بعد انہیں چار فروری 2000ء کو سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج اور 30جون 2005ء کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا گیا۔ ان کے بھانجے عامر رانا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مصروفیات سے وقت ملتا تو رشتہ داروں، دوستوں اور جاننے والوں کی خوشی اور غم میں ضرور شریک ہوتے، گھر میں ان کا بہت شاندار رویہ ہے وہ بہت اچھے والد ہیں، بہت اچھے انکل ہیں، ان کا ہر رول بہت شاندار ہے، ہماری اس چیز کی خواہش ہوتی تھی کہ تھوڑا سا ٹائم مل جائے تو گپ شپ کرلیں، انتہائی خوش اخلاق اور رشتہ داروں بچوں سے بہت پیار کرنے والے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ کر ملک میں آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اہم ملکی مسائل پر ازخود نوٹس لئے جس سے نہ صرف قانون بالادست ہوا، بلکہ عام افراد کی نگاہیں بھی انصاف کیلئے سپریم کورٹ پر لگ گئیں، اہم ملکی مسائل پر دیئے گئے فیصلوں سے عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوا۔ سابق ایڈوکیٹ جنرل بلوچستانامان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ افتخار محمد چوہدری کی وجہ سے عدلیہ کو جو وقار جو مقام ملا وہ گذشتہ 70سالہ تاریخ میں ایک ہی چیف جسٹس ہوگا جسے اس طرح کا مقام ملا ہے۔ بلوچستان میں دس سال سے درپیش لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے جس قدر کوششیں کیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، سپریم کورٹ کی 90سے زائد سماعتوں کے نتیجے میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اگرچہ چند ہی لاپتہ افراد سامنے آسکے، لیکن مسئلے کے حل کی راہ ضرور متعین ہوگئی۔ صدر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ظہور شاہوانی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جتنی بھی توقع اس حوالے سے ہونی چاہیے تھی کہ کافی لوگ منظر عام پر آئیں گے اس میں تھوڑی سے مایوس ہوئی ہے تاہم افتخار محمد چوہدری کا نام ملک میں عدلیہ کی تاریخ میں روشن حرفوں سے رقم ہوگیا ہے۔ عوام کو توقع ہے کہ انصاف کی فراہمی سے متعلق آزاد عدلیہ اورآئین و قانون کی سربلندی کیلئے جو بلند اصول، ضابطے متعین ہوگئے ہیں، نئے چیف جسٹس اور جج اس سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔