02 مئی ، 2014
اسلام آباد…دنیا بھر میں آج آزادی صحافت کا دن منایا جارہا ہے لیکن پاکستان میں صحافی اس آزادی کی کیا قیمت چکارہے ہیں اور کن حالات میں سچ عوام تک پہنچارہے ہیں،آپ کے لیے ایک گولی کا انتخاب کیا جا چکا ہے۔یہ وہ عنوان ہے جس کے تحت ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں صحافیوں پر حملوں کے بارے میں سالانہ رپورٹ جاری کی۔پاکستان صحافیوں کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے،یہ روایتی فقرہ اب ایک بد ترین حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور سال 2008 سے اب تک پاکستان میں 34 صحافی اپنے پیشہ وارانہ فراض کی ادائیگی کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔چند دن قبل ایک جان لیوا حملہ جیو نیوز کے سینئر اینکر اور معروف صحافی حامد میر پر کیا گیا۔انہیں 6 گولیاں لگیں تاہم اللہ نے انہیں بچا لیا۔پاکستان میں میڈیا سے وابستہ افراد کو مختلف نوعیت کے خطرات درپیش ہیں۔ قومی سلامتی کے امور پر رپورٹنگ کے دوران کبھی خفیہ ادارے ناراض ہوجاتے ہیں تو کبھی شدت پسند جان کے درپے۔کبھی کسی تحقیقاتی رپورٹ پر سی اسیرہنماوٴں کے ماتھے پر شکن آ جاتی ہے تو کبھی مذہبی جماعتیں کڑوا سچ برداشت نہیں کرتیں اور ان سب کے غیض و غضب کا ہدف بنتاہے ۔پاکستان میں صحافیوں کی ہلاکت،اغواء ،تشدد اور دھمکیوں کے بعد تحقیقاتی کمیشن بنانا ایک معمول بن چکا لیکن آج تک صرف ولی بابر کے قاتلوں کو ہی انصاف میں کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکا۔یہی وجہ ہے کہ کبھی سلیم شہزاد کی تشدد زدہ لاش ملتی ہے تو کبھی عمر چیمہ کو اغواء کے بعد سبق سکھایا جاتا ہے۔کبھی ملک ممتاز کو شہید کر دیا جاتا ہے تو کبھی انصار نقوی کو دھمکیاں ملتی ہیں۔رحمت اللہ درپاخیل کو دن دیہاڑے اٹھالیا جاتا ہے تو علی چشتی کو نشان عبرت بنایا دیاجاتا ہے اور ساتھی صحافی بس احتجاج کرتے رہ جاتے ہیں۔پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے الفاظ بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے لیکن قلم اور کیمرے کو جبر و تشدد کا نشانہ بنا کر پیامبر کی آواز کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں ،یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔