21 نومبر ، 2014
واشنگٹن .......پاکستان کے لیے جاسوسی کرنے کے الزامات کی زد میں آئی امریکی سفارتکار رابن ایل رافیل پرابھی تک کوئی چارج نہیں لگایا گیا، نہ ہی ان سے سوالات کیے گئے ہیں ، تاہم یہ بات سامنے آئی ہےکہ وہ کلاسیفائڈ انفارمنس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اپنے آفس سے گھر لے گئی تھیں اور ان کے گھر پر چھاپے کے دوران یہ معلومات وہاں سے برآمد بھی ہوئیں ہیں ۔امریکی ایف بی آئی نے سینئر سفارتکار رابن رافیل پر شکنجہ کستے ہوئے ان کے خلاف تحقیقات شروع کیں ، ان کی سیکیورٹی کلیئرنس واپس لے لی گئی اور رابن رافیل اس وقت شکنجے میں آئیں جب امریکی حکام نے ایک پاکستانی آفیشل کا یہ پیغام پکڑا کہ انہوں نے رافیل سے امریکی خفیہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس پیغام کے بعد ایف بی آئی نے تحقیقات کا دائرہ بڑھایا ، اگرچہ جاسوسی کی ایسی تحقیقات غیر معمولی ہیں کہ آیا دہشت کردی کے خلاف جنگ کےبعد جاسوسی ایف بی آئی کی دوسری بڑی ترجیح ہے ، لیکن ایف بی آئی آفیشل نے امریکی اخبار کو ایسا کچھ بھی بتانے سے انکار کیا ہےکہ رابن رافیل کےخلاف کس قسم کی تحققیات ہورہی ہیں ، دوسری طرف رابن رافیل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نہ تو رابن رافیل سے کوئی سوالات کیے گئے ہيں نہ ہی انہیں یہ بتایا گیا ہے وہ تحقیقات کی زد میں ہیں اور اب تک ان پر کوئی چارج نہیں لگایا گیا ۔ادھر امریکی جسٹس ڈپارٹمنٹ بھی ایف بی آئی کی حاصل کردہ معلومات پر یہ سوچنے میں مصروف ہے کہ آیا ان معلومات کو اتنا سنجیدہ کیوں لیا گیا ۔ امریکی اخبار کہتاہے کہ ابھی تک یہ بات سامنے نہيں آئی کہ پاکستانی آفیشل کا جو پیغام پکڑا گیا وہ ٹیلی فونک گفت گو تھی ، کوئی ای میل تھی یارابطے کا کوئی اور ذریعہ تھا ، کیس کی سنجیدگی کو دیکھتےہوئے رابن رافیل نے سیکیورٹی کے معاملات میں مہارت رکھنے والی وکیل کي خدمات حاصل کرلی ہیں ۔ امریکی قوانین کے مطابق کلاسیفائڈ انفارمیشن گھر لےجانا ایک جرم ہے لیکن ایسا کم ہی دیکھنے میں آتاہے ، اور رابن رافیل پر یہی الزام ہے ، طالبان کے خلاف اتحادی ہونے کےباوجود امریکا پاکستان کوشک کی نگاہ سے دیکھتاہ ے اور اسے یقین ہے کہ پاکستان نے امریکی حکومت کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی ڈبل ایجنٹ استعمال کیے ، جبکہ یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ رابن رافیل پاکستان کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتی ہیں۔