17 دسمبر ، 2014
اسلام آباد......انصار عباسی...... ایک طرف حکومت دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے تو دوسری طرف یورپی یونین سے معاشی فائدے کے حصول کی خاطر عملاً قصاص کے متعلق قرآنی قوانین پر پاکستان میں 2008 سے عملدرآمد بند ہے۔ پاکستان میں سزائے موت پر پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے پابندی عائد کی تھی لیکن حال ہی میں ایک وفاقی وزیر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ یورپی یونین کی معاشی پابندیوں سے بچنے کیلئے سزائے موت پر پابندی پر عملدرآمد کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر عدلیہ پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور مجرموں کو رہا کردیتی ہے اور سزائے موت پانے والے افراد کی ایک لمبی فہرست بھی موجود ہے لیکن انہیں سزائیں نہیں مل رہیں کیونکہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے ستمبر 2008 میں سزائے موت پر پابندی عائد کردی تھی۔ شروع میں مسلم لیگ (ن) نے اس پابندی کی مخالفت کی لیکن جب یہ جماعت خود جون 2014 میں اقتدار میں آئی تو اس نے پابندی برقرار رکھی۔ پہلے حکومت نے یہ کہا کہ یہ پابندی عارضی ہے جس کا مقصد تحریک طالبان پاکستان سے جنگ بندی کی یقین دہانی حاصل کرنا ہے لیکن بعد میں یہ بات سفید جھوٹ ثابت ہوئی کیونکہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پابندی یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی خصوصی اقتصادی مراعات کی وجہ سے عائد کی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں سزا یافتہ مجرموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ 2012 میں ایک مقامی اخبار نے رپورٹ دی تھی کہ ایسے مجرموں کی تعداد 7164 ہے جبکہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق یہ تعداد 8000 کے قریب ہے۔ سرکاری اعلان کے بغیر ہی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ستمبر 2008 میں اقتدار میں آتے ہی سزائے موت پر مکمل پابندی عائد کردی تھی جس سے پاکستان دنیا کے ان 36 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا جہاں سزائے موت پر مکمل پابندی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یورپی یونین کے دبائو کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت یہ پابندی عائد کی گئی تھی۔ ایک موقع پر جب کچھ انسانی حقوق کی تنظیمیں سزائے موت کے خاتمے کیلئے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن سزائے موت اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے جسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ 2008 سے صرف ایک مجرم کو پھانسی دی گئی ہے۔ یہ اقدام آرمی چیف کے اصرار پر کیا گیا تھا جس میں مجرم آئی ایس آئی کا ایک اہلکار تھا جس نے اپنے ساتھی کا قتل کیا تھا۔ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، غیر موثر انٹیلی جنس، ناامید پولیس نظام، خراب قانونی کارروائی اور انسداد دہشت گردی کی بیکار حکمت عملی کے دوران، حکومتیں سارا الزام عدلیہ پر ڈالنے کی کوشش کرتی رہی ہیں جس میں وہ دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے معاملے میں اپنی کمزوریوں کو یکسر نظرانداز کردیتی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سنگین جرائم یں ملوث مجرموں کو سزائیں دینے سے ملک میں جرم کو روکنے میں مدد ملے گی۔ عمومی طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد اور مجرم کارروائی کرکے صاف بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ آسانی کے ساتھ کام دکھا کر اور معصوم افراد کو قتل کرکے بچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔