19 نومبر ، 2015
کراچی…ساگر سہندڑو…..صوبہ سندھ کے شمال مغرب میں واقع ضلع سجاول سے تاریخ میں پہلی بار روایتی مردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک بہادر خاتون بلدیاتی الیکشن کے میدان میں اتری ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی اور ایک آزاد مرد امیدوار کا مقابلہ کرنے کیلئے 9 بچوں کی ماں نسرین سمیجو کونسلر کے انتخابات کیلئے میدان میں اتری ہیں۔
حالیہ حکومت کی جانب سے 2 سال پہلے ضلع کا درجہ حاصل کرنے والے سجاول کے تعلقہ جاتی کے وارڈ نمبر4 سے پیپلزپارٹی کے پرانے ورکردلدار سمیجو کی 52 سال بیوی نسرین سمیجو کا مقابلہ پی پی کے محمود میمن، ایس ٹی پی کے محمد تھہیم اور آزاد امیدوار علی نواز شیخ سے ہوگا۔ اس وارڈ میں تین مردوں کے مقابلے اکیلی خاتون جنرل کونسلر کیلئے الیکشن لڑ رہی ہیں۔
’جنگ‘ ویب سے گفتگو کرتے ہوئے نسرین سمیجو کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے آج ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں وہ کامیاب ہوجائیں گی کیوں کہ ان کی الیکشن مہم ان کی 8 سالہ بیٹی بے نظیر نے چلائی ہے۔نسرین سمیجوکی بیٹی بینظیر 27 دسمبر 2007 ء کی اس شام پیدا ہوئی تھیں جس شام سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا انتقال ہوا تھا۔
تعلیم کے زیور سے محروم نسرین نے کہا اس نے آدھی زندگی اپنے شوہر کی سیاست دیکھی ہے جو پیپلز پارٹی کا پرانہ ورکر ہے۔ وہ عہدے اور مشہوری کیلئے نہیں بلکہ اپنے علاقے کے محروم اورغریب طبقے کی خدمت کیلئے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے رہیں ہیں۔
نسرین نے مزید کہا کہ ان کے شوہر دلدار نے پیپلز پارٹی کے لئے بہت ساری قربانیا ں دی ہیں لیکن اعلیٰ قیادت نے پارٹی میں وقتی طور پر آنے والے روایتی وڈیروں اور بااثر لوگوں کے کہنے پر ان کی تمام قربانیوں کو نظر انداز کردیا۔
الیکشن مہم کے لئے جہاں دیگر پارٹیاں اور امیدوار ہزاروں روپے خرچ کر رہے ہیں وہیں نسرین سمیجو اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ گھر گھر جاکر لوگوں سے ووٹ مانگ رہی ہیں۔نسرین سمیجو کی شادی شدہ بیٹیاں، ان کے بہن، بھائی اور محلے کی خواتین بھی ان کی الیکشن مہم چلا رہی ہیں۔
وارڈ نمبر 4 کے اکثر ووٹرز نے نسرین کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے انہیں یقین ہے کہ حلقے کی تمام خواتین انہیں کامیاب کروائیں گی۔وارڈ نمبر 4 میں مردوں اور خواتین کیلئے ایک ہی پولنگ اسٹیشن بنایا گیا ہے جسے حساس پولنگ اسٹیشنز میں شمار کیا گیا ہے۔ نسرین نے مطالبہ کرتے ہوئے کہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کروائے جائیں۔
نسرین کے شوہر 59 سالہ دلدار سمیجو نے ’جنگ ‘ویب سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1974 میں جب ذوالفقار علی بھٹو ٹھٹھہ کے عبدالستار لوہر کے گھر پہنچے تب سے ہی وہ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ دلدار سمیجو 1990 میں پی پی یوتھ ضلع ٹھٹھہ کے نائب صدر اور پھر صدر بن گئے جبکہ 1997 سے اب تک وہ پی پی تعلقہ جاتی کے جنرل سیکریٹری ہیں لیکن ان کی بیوی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑ رہی ہیں۔
دلدار سمیجوکے مطابق جاتی ٹاؤن کے وارڈ نمبر 4 میں کل 1100 رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے 550 عورت ووٹرز ہیں۔ اسی وارڈ میں سمیجو برادری کے 450 رجسٹرڈ ووٹرزبھی ہیں لیکن نسرین سمیجو برادری ووٹرز پر نہیں بلکہ غیر برادری ووٹرز پر یقین رکھتی ہیں ۔انہوں نے اپنی پوری الیکشن مہم میں برادری ووٹرز کی اہمیت پر زور نہیں دیا۔ جنرل کونسلر کی امیدار کے شوہر کا کہنا ہے وہ بھی برادری ووٹرز پر یقین نہیں رکھتے۔
باون سالہ نسرین کے 9 بچے ہیں جن میں سے 7 شادی شدہ ہیں۔نسرین سمیجو کا بڑا بیٹا 32 سالہ ظہیر احمد سمیجوٹاؤن کمیٹی میں کلرک ہے جس کی تنخواہ بند کردی گئی ہے۔نسرین سمیجو اور اس کے گھر والوں کو پیپلز پارٹی کی قیادت اور رہنماؤں سے تو کوئی دھمکی موصول نہیں ہوئی لیکن پارٹی میں داخل ہونے والے نئے بااثر وڈیروں کے لوگوں نے انہیں دھمکانا شروع کردیا ہے۔ نسرین اور ان کے شوہر ان دھمکیوں کو پی پی قیادت سے نہیں بلکہ موسمی وڈیروں سے منسوب کرتے ہیں۔
خودالیکشن لڑنے کی بجائے اپنی بیوی کو انتخابی میدان میں کیوں اتارا کے جواب میں دلدار سمیجو نے کہا کہ وہ 2 سال پہلے ہی سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں اس لئے وہ قانونی طور پر الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں۔
دلدار سمیجو 2007 میں بے نظیر بھٹو کے حکم پر” جیل بھرو تحریک“ میں پانچ دن تک جیل بھی جاچکے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے تین ماہ قبل ہی ان کو ایک ملاقات میں ٹکٹ دینے کی یقین دہانی بھی کروائی تھی لیکن پھر بھی اسے نظرانداز کیا گیا۔