پاکستان
15 دسمبر ، 2015

سانحہ آرمی پبلک اسکول ، شہداء میںچار خاندانوں کے دو، دو بیٹے شامل

سانحہ آرمی پبلک اسکول ، شہداء میںچار خاندانوں کے دو، دو بیٹے شامل

اسلام آباد…جویریہ صدیق…سانحہ آرمی پبلک اسکول کو آج ایک سال ہوگیا، لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کل ہی کی بات ہو، جب بچے ہنستے مسکراتے اسکول گئے تھے لیکن واپس نا آئے اور والدین کو اپنے بچوں کی جسد خاکی ملے۔

ایک سال بعد بھی بہت سے والدین اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ان کے بچے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے اور کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ جب بھی دروازے پر دستک ہو یا اسکول وین کا ہارن سنائی دیتا ہے توان کے دل میں یہ امید جاگ جاتی ہے کہ شاید ہمارا بیٹا واپس آگیا ہو۔

سانحہ اے پی ایس میں ایک147افراد شہید ہوئے۔ متاثرہ خاندانوں میں سے چار خاندان ایسے بھی ہیں جن کے دو ،دو بیٹے شہید ہوئے۔کسی بھی درد دل رکھنے والے شخص کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوگی ۔

شامویل طارق ، ننگیال طارق، نور اللہ درانی ، سیف اللہ درانی ، ذیشان احمد، اویس احمد ، سیدعبداللہ اور سید حسنین نے سانحہ میں شہادت پائی۔

ننگیال طارق شہید تمغہ شجاعت ، شامویل طارق شہید تمغہ شجاعت
15 سالہ شامویل طارق اور13 سال کے ننگیال طارق بالترتیب نویں اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے۔دو سال پہلے ہی دونوں کو اچھی تعلیمی سہولیات کے باعث آرمی پبلک اسکول ورسک روڈ میں داخل کروایا گیا۔دونوں کو پاک آرمی جوائن کرنے کا شوق تھا۔شہدا کی بہن مہوش جو مقامی یونیورسٹی میں بی ایس آنر کر رہی ہیں وہ کہتی ہیں:

” اس واقعے نے ہماری زندگی ویران کردی ہے، میرے دونوں بھائی بہت ذہین اور خوش اخلاق تھے۔ایک سال ہوگیا لیکن ہم آج بھی سانحے سے نہیں نکل پائے۔ہمارے سامنے دونوں بھائیوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی تھیں۔

وہ بھائی جو ہماری امیدوں کا مرکز تھے، ہمارے والدین کے بڑھاپے کا سہارا تھے، ہمیں یقین نہیں آرہا کہ وہ چلے گئے۔میری والدہ کے آنسو اب بھی خشک نہیں ہوئے۔16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک اسکول ہمارے ہنستے بستے گھر کو ہمیشہ کے لئے اجاڑ کر گیا۔میں چاہتی ہوں کہ ان بچوں کو انصاف دیا جائے اور دہشت گردوں کو کڑی سزا دی جائے۔“

نور اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت، سیف اللہ درانی شہید تمغہ شجاعت
نور اللہ ،سیف اللہ دونوں بھائی آرمی پبلک اسکول میں نویں اور آٹھویں کلاس کے طالب علم تھے۔دونوں بچپن سے ہی آرمی پبلک اسکول و کالج ورسک روڈ میں زیر تعلیم تھے۔شرارتی نٹ کھٹ نور اللہ اور سیف اللہ گھر بھر کی جان تھے۔اکثر دونوں کھلونا بندوقیں خریدتے اور پھر آرمی کے سپاہی بن کر دہشت گردوں کو پکڑنے کا کھیل کھیلتے۔ دونوں کو آرمی میں جانے کا بہت شوق تھا۔

نور کو بری فوج اور سیف کو پاک فضائیہ جوائن کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔نور کہتا تھا کہ میں فوج میں جاکر تمام ملک دشمنوں کا خاتمہ کروں گا اور سیف کو تو جہاز اڑانے کا شوق تھا ۔وہ کہتا تھا میں ایف سولہ طیارہ اڑائوں گا اور دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کرکے انہیں نیست و نابود کردوں گا۔

شہید طالب علموں کی بہن ثناء کہتی ہیں:
”ایسا کوئی دن نہیں گزرتا کہ وہ یاد نا آتے ہوں ۔ہم کھانا بھی کھانا چاہیں پر چند لقموں کے بعد نوالے حلق میںرک جاتے ہیں۔ میرے والدین صبرو ہمت کی مثال ہیں لیکن ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جس میں ہم روتے نا ہوں۔میں بس یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی سب والدین کو صبر دے ۔آمین۔“

سید عبداللہ شاہ شہید تمغہ شجاعت، سید حسنین رضا شہید تمغہ شجاعت
سانحہ آرمی پبلک اسکول اپنے پیچھے بہت سی دردناک داستانیں چھوڑ گیا جس میں ایک دل سوز داستان سید فضل حسین کی بھی ہے جن کے دونوں بیٹوں سید عبداللہ اور سید حسنین نے آرمی پبلک اسکول و کالج ورسک روڈ میں16 دسمبر کو شہادت پائی۔

عبداللہ دسویں حماعت کے طالب علم تھے اور ڈاکٹر بن کر ملک اور قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے جبکہ سید حسنین آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے ،ان کی والدہ انہیں فوج میں بھیجنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ سانحے کو ایک سال بیت گیا لیکن والدین کی نگاہیں اب بھی ان دونوں کی راہ تک رہی ہیں۔گھر سے دو بچوں کا چلے جانا کسی قیامت سے کم نہیں۔

شہدا کے والد فضل حسین کہتے ہیں ” ہمارا گھر ان کے جانے کے بعد کسی کھنڈر کا سا سماں پیش کررہا ہے۔ ان کی والدہ بچوں کے کپڑوں کو نکال کر چومتی ہیں اور روتی ہیں۔ہمارے بچے شروع سے ہی اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ عبد اللہ خاص طور پر پوزیشن ہولڈر تھا۔عبداللہ کی شہادت کے بعد جب اس کا نتیجہ آیا تو اس نے پہلی پوزیشن حاصل کی ۔

ان دونوں کے بعد ہماری زندگی تباہ ہوگئی۔ ان کے لئے ہمارے سارے ارمان ادھورے رہ گئے۔مگر اس بات سے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے وطن کی خاطر جان دی۔پاک آرمی کے افسران نے ہمارا بہت ساتھ دیا مشکل کی گھڑی میں ہمیں اکیلا نہیں چھوڑا۔اللہ تعالی ہماری صفوں میں اتحاد برقرار رکھے، اس وطن میں امن و امان قائم رہے۔ آمین۔“

ذیشان احمد شہید تمغہ شجاعت، اویس احمد شہید تمغہ شجاعت
ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے صوبیدارر اکرام اللہ کے دو بیٹوں نے بھی سانحہ آرمی پبلک ا سکول میں شہادت پائی۔ذیشان احمد دسویں کلاس میں اور اویس احمد آٹھویں کلاس میں تھے۔پلے گروپ سے ہی دونوں اے پی ایس میں زیر تعلیم تھے۔ذیشان ڈاکٹر بننا چاہتے تھے اور اویس کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی۔

شہید بچوں کے والد اکرام اللہ کہتے ہیں ” میرے دونوں بچے بہت اخلاق والے تھے۔ہمیشہ سب کی مدد کرتے۔ہمیں لگتا ہے کہ جیسے آج بھی ہم 16 دسمبر 2014 میں ہی کھڑے ہیں۔ان کی والدہ بہت ہی رنجیدہ رہتی ہیں۔میں نے خود ساری زندگی فوج میں رہ کر وطن کی خدمت کی ،مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے بیٹوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان دی۔ان بچوں کی قربانی کے بعد پاکستان کے امن و امان پر بہت فرق پڑا اور صورتحال بہتر ہوئی۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالی پاکستان کو امن کا گہوارا بنادے آمین۔“

مزید خبریں :