10 جولائی ، 2017
پاناماکیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جب کہ عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت پیر 17 جولائی تک ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو 10جولائی تک کام مکمل کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے 62 دن بلاناغہ کام کرکے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی عملدرآمد بینچ کو جمع کرادی۔
تحقیقاتی ٹیم نے آج اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے سے قبل فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں اس کا مکمل جائزہ لیا۔
سخت سیکیورٹی
جے آئی ٹی کے ارکان سخت سیکیورٹی میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے سپریم کورٹ پہنچے۔ ایس ایس پی جمیل ہاشمی کے مطابق سپریم کورٹ کی سیکیورٹی پر عموماً 100 اہلکار تعینات ہوتے ہیں لیکن آج 500 اہلکاروں کو سیکیورٹی کے لیے تعینات کیا گیا۔
سخت سیکیورٹی میں رپورٹ کو سربمہر ڈبوں میں عدالت لایا گیا اور ڈبے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی گاڑی میں رکھے گئے تھے۔
اس موقع پر پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ کی سیکیورٹی انتہائی سخت رکھی گئی اور کسی غیر متعلقہ شخص کو عدالت عظمیٰ میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جلد نمبر 10 عام نہ کرنے کی استدعا
رپورٹ جمع کرانے کے بعد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیاء نے عدالت سے رپورٹ کی جلد نمبر 10 عام نہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ یہ جلد مزید تحقیقات کے لیے استعمال ہوگی۔
عدالت نے حکم دیا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی کاپی اٹارنی جنرل کو بھجوائی جائے جب کہ فریقین کو رپورٹ کی نقل رجسٹرار آفس سے حاصل کرنے کی ہدایت کی۔
عدالتی بینچ نے کہا کہ تمام ارکان واپس اپنے اداروں میں جائیں گے تو انہیں مکمل آزادی ہوگی اور اگر ان ارکان کو کسی نے تنگ کیا تو یہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا حسین نواز کی تصویر لیک کے ذمہ دار کا نام سامنے لانے کا حکم
تصویر لیک
پیر کو سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے بینچ نے حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والے شخص کا نام سامنے لانے کا حکم دیا جب کہ تصویر لیک کے معاملے پر وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی کمیشن بنانے کی درخواست نمٹا دی۔
توہین عدالت کا نوٹس
عدالت نے جے آئی ٹی سے متعلق چھپنے والی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، پبلشر میر جاوید رحمان اور صحافی احمد نورانی کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے۔
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے اس حوالے سے 7 روز کے اندر وضاحت طلب کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا ظفرحجازی کیخلاف فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم
چیرمین ایس ای سی پی کے خلاف مقدمہ
دورانِ سماعت جسٹس اعجاز افضل خان نے سوال کیا کہ ریکارڈ ٹیمپرنگ کا کیا بنا جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ذمہ دار قرار دیا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے ریکارڈ ٹیمپرنگ پر ظفر حجازی کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کیے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی تحقیقات کے دوران کب کیا ہوا ؟
مریم نواز کی ٹوئٹ
سماعت سے قبل جے آئی ٹی کی رپورٹ سربہمر ڈبوں میں لائے جانے کے بعد وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے ڈبوں کی تصاویر کے ساتھ ٹوئٹ کی۔
مریم نواز کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ شریف فیملی پر ثبوت نہ دینے کا الزام لگانے والے آج سپریم کورٹ میں شریف فیملی کے کاروبار کی 1960 سے اب تک کے ثبوتوں کی ٹرالی دیکھ لیں۔
6 رکنی جے آئی ٹی کے ممبران
5 مئی کو تشکیل دی جانے والی 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کررہے ہیں جب کہ ٹیم میں اسٹیٹ بینک کے عامر عزیز، سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے بلال رسول، ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر کامران خورشید، آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر(ر) نعمان سعید اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے عرفان منگی شامل ہیں۔
جے آئی ٹی کی کارروائی
جے آئی ٹی نے مجموعی طور پر 62 دن کام کیا اور اس دوران وزیراعظم نواز شریف، ان کے دو بیٹوں حسن، حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور بھائی شہبازشریف سمیت شریف خاندان کے دیگر اہم افراد کے بیانات قلمبند کیے۔
جے آئی ٹی نے اپنی پہلی پیشرفت رپورٹ 22 مئی کو سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ کو جمع کرائی۔ دوسری پیشرفت رپورٹ 7 جون اور تیسری 22 جون کو جمع کرائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی وکلا شریف فیملی کیخلاف ثبوت حاصل کرنے میں ناکام
ٹیم نے شہباز شریف اور وزیراعظم نوازشریف کے قریبی عزیز طارق شفیع، جاوید کیانی، وزیراعظم کے سمدھی و وزیرخزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے کلاس فیلو اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد چمن کے بیانات بھی لیے۔
چیئر مین نیب کی طلبی
جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری کا بھی حدیبیہ پیپرملز کیس کے بارے بیان قلمبند کیا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر بشارت شہزاد اور جاتی امرا پراپرٹی کی تحقیقات کرنے والے سابق ایف آئی اے افسر جاوید علی شاہ سے بھی کیس کا پس منظر جانا۔
یہ بھی پڑھیں: 13سوالات کے جوابات: جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو نہیں ان کے بیٹوں کو قصوروار پایا
قطری شہزادے کو خط
جے آئی ٹی نے کیس کی تحقیقات کے لیے قطری شہزادے حمد بن جاسم کو بھی خطوط لکھے جنہوں نے خطوط کے جواب میں ٹیم کو اپنے محل آنے کی دعوت دی تاہم قطر کے سابق وزیراعظم کسی بھی قسم کی تفتیش میں شامل نہیں ہوئے۔
حکومت کا اعلان
دوسری جانب حکومت نے قطری شہزادے کے بیان کے بغیر رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کا اعلان کردیا ہے۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو سب سے پہلے قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیے تھا، جب پرویز مشرف کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کیا جاسکتا ہے تو قطری شہزادے کا کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد کچھ اور تھا، مگر اس نے کوئی اور کام دھندا شروع کردیا۔
خواجہ آصف نے مطالبہ کیا کہ جے آئی ٹی کی تمام کارروائی عوام کے سامنے لائی جائے۔