17 اگست ، 2017
سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ان کا فوج کے تمام سربراہان کے ساتھ مخالفت یا مخاصمت رہی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ قانون کی حکمرانی پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اگر کوئی قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں رکھتا تو وہ اس سے اتفاق نہیں رکھتے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ تمام فوجی سربراہان سے ان کی مخاصمت رہی ہے، کچھ فوجی سربراہان کے ساتھ ان کی بہت اچھی بات چیت تھی اور ان کے ساتھ وہ بہت اچھے رہے۔
نواز شریف نے کہا کہ جےآئی ٹی میں شامل تمام لوگ ہمارے بدترین مخالف تھے لیکن میں بطور وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہوا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے پاناما کی درخواست مسترد کی اور پھر منظور کرلی۔
سابق وزیراعظم نے سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ دھرنا تھا کس لیے؟ بتایا جائےکہ دھرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دھرنے کے کرداروں کے بارے میں بعد میں بتاؤں گا۔
نواز شریف پاکستان کی معاشی بدحالی کا کون ذمے دار ہوگا؟ پی ٹی آئی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچا، سی پیک زوروں سے چل رہا تھا لیکن اس پر کام دھرنوں سے متاثر ہوا، پی ٹی آئی نے پہلے دھاندلی کی رٹ لگانی شروع کردی اور پھر احتجاج شروع کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں انفرا اسٹرکچر بن رہا ہے، پاکستان میں شرح نمو میں اضافہ ہورہا ہے، ملک میں امن قائم ہوا ہے، کراچی کا امن ہم نے بحال کیا ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت 2013 میں قائم ہوئی تھی، اور بڑا واضح مینڈیٹ تھا لیکن کیا یہ عوام کے ووٹ کا احترام ہے؟ بنگلا دیش میں عوام کا حق حکمرانی مانا گیا ہوتا تو ملک نہ ٹوٹتا۔
انہوں نے کہا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف مشرف نے مارشل لا لگایا تو مشرف میرے خلاف تھے، فوج میرے مخالف نہیں تھی جبکہ فوج کا بڑا حصہ ان کے اقدام کا حامی نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ووٹ کی حرمت کو جب چھوڑ دیاتو ملک ٹوٹ گیا، کیاہم نے ماضی سےکوئی سبق نہیں سیکھا؟ اگر سبق سیکھا ہوتا تو پہلے مارشل لاکے بعد دوسرا اور تیسرا نہ لگتا۔
انہوں نے کہا کہ تین مارشل لا ڈکٹیٹر تیس سال کھا گئے، ہر وزیراعظم کے حصے میں اوسطاً ڈیڑھ سال آیا۔
نواز شریف نے کہا کہ ہمارا 1972 سے احتساب کیا گیا، بتایا جائےکیا میں نے سرکاری پیسوں میں خورد برد کی؟ کوئی سرکاری پیسے میں خورد برد کی ہوتی تو آج آپ کے سامنے شرمسار بیٹھا ہوتا، مجھ پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورا خاندان جے آئی ٹی کےسامنے پیش ہوا، کس بات کا احتساب ہورہاہے؟ شہباز شریف، مریم ، حسن اور حسین نواز بھی جےآئی ٹی میں پیش ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک بدلے گا، ملک کا بدلنا ضروری ہے، ووٹ کے تقدس کی تحریک پورے ملک میں پھیلے گی، میں اس لیے نہیں یہ کہہ رہا کہ وزیراعظم کی کرسی پر دوبارہ آکر بیٹھوں، یہ نشست کانٹوں کی سیج ہے۔
نواز شریف نے کہ ہم نے بڑی برد باری کا مظاہرہ کیا تھا، ہم نے ضبط اور صبر سےکام لیا، پچھلے چار سال میں نظریے سےہٹ کر کوئی کام نہیں کیا، میں نے آج تک میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی نہیں کی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دیا تھا جس کے بعد انہوں نے وزارت عظمیٰ سے فوری استعفیٰ دیتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس خالی کیا۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نوازشریف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ نوازشریف صادق اور امین نہیں رہے لہٰذا صدر مملکت نئے وزیراعظم کے انتخاب کا اقدام کریں۔
سابق وزیراعظم نے نااہلی کے بعد قافلے کی صورت میں لاہور میں واقع اپنی رہائش گاہ جانے کا اعلان کیا اور 9 اگست کو پنجاب ہاؤس سے ریلی کی شکل میں لاہور کی جانب روانہ ہوئے اور 4 روز میں سفر طے کرنے کے بعد اپنی رہائشگاہ رائیونڈ پہنچے۔
سفر لاہور کے دوران سابق وزیراعظم نے مختلف مقامات پر قیام کرتے ہوئے کارکنان سے خطاب کئے، نواز شریف نے کارکنان سے سوال کیا کہ ' کیا انہیں یہ قبول ہے کہ آپ وزیراعظم کو اسلام آباد بھیجیں اور 5 معزز جج ایک منٹ میں منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیں۔
سابق وزیراعظم اپنے خطاب کے دوران یہ سوال بھی کرتے رہے کہ کیا عوام کو عدالتی فیصلہ قبول ہے، کیا انہوں نے کوئی کرپشن کی جب کہ انہیں بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ وصول نہ کرنے پر نااہل قرار دیا گیا۔