پاکستان
Time 06 نومبر ، 2017

حماد صدیقی دبئی میں ٹریڈنگ کمپنی کا ملازم رہا، ذرائع

حماد صدیقی 2013 میں دبئی منتقل ہوا تھا—۔فوٹو/جیو نیوز—۔

دبئی:  سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ دبئی میں جنرل ٹریڈنگ کمپنی کا ملازم تھا۔

حماد صدیقی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رکنیت کی معطلی کے بعد 2013 میں دبئی منتقل ہوا تھا، وہ پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کراچی تنظیمی کمیٹی (کے ٹی سی) کا انچارج تھا۔

مقامی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق حماد صدیقی کے پاس 2014 سے التکاتف جنرل ٹریڈنگ(ایل ایل سی) میں مارکیٹنگ مینیجر کا ویزہ تھا۔

جیو کو موصول دستاویز کے مطابق حماد صدیقی متحدہ عرب امارات میں مستقل ویزے پر رہائش پذیر تھا جبکہ ویزے پر اس کا نام حماد صدیقی مسیح الحق صدیقی درج ہے۔

حماد صدیقی کو گذشتہ ماہ اکتوبر کے آخر میں دبئی پولیس اور پاکستانی حکام کی معاونت سے انٹرپول نے گرفتار کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حماد صدیقی کے ساتھ دبئی میں ایم خان نامی ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا۔

مختلف قابل وثوق ذرائع سے اس بات کا علم ہوا ہے کہ حماد صدیقی اور مذکورہ خاتون کے درمیان تعلق کے حوالے سے دونوں ممالک میں تحقیقات جاری ہیں۔

دوسری جانب حماد صدیقی کی پاکستان کو حوالگی کا قانونی عمل بھی تیز کردیا گیا۔

دبئی میں پاکستانی قونصل خانے کے ذرائع نے اس امید کا اظہار کیا کہ حماد صدیقی کو جلد ہی پاکستان منتقل کردیا جائے گا، تاہم انہوں نے اس کے ٹائم فریم کے حوالےسے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ بلدیہ کی ٹیکسٹائل فیکڑی میں ستمبر 2012 آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں 250 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔

گذشتہ برس انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے پاکستانی حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ حماد صدیقی کو انٹرپول کے ذریعے گرفتار کریں، جس کے بعد عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے وزارت داخلہ نے حماد صدیقی کے ریڈ وارنٹ جاری کردیے تھے۔

دسمبر 2016 میں بلدیہ فیکٹری کیس کے ایک اور ملزم رحمان بھولا کو تھائی لینڈ کے شہر بینکاک میں انٹرپول نے گرفتار کیا تھا۔

رحمان بھولا نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایم کیو ایم لیڈر حماد صدیقی کی ہدایات پر فیکٹری میں آگ لگائی تھی۔

ملزم نے مزید انکشاف کیا تھا کہ ایم کیو ایم رہنما نے بھتہ ادا نہ کرنے پر بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے کی ہدایات دی تھیں۔

اس نے مزید دعویٰ کیا کہ فیکٹری میں آگ لگانے کا مقصد مالکان کو ڈرانا تھا اور اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ اس طرح سیکڑوں جانیں ضائع ہوجائیں۔


مزید خبریں :