Time 18 نومبر ، 2017
پاکستان

ختم نبوت قانون کی غلطی، ذمہ دار زاہد حامد نہیں، ’’کوئی اور تھا‘‘

عمومی تاثر کے برعکس، سینیٹر راجہ ظفر الحق کی زیر قیادت مسلم لیگ (ن) کی تحقیقاتی کمیٹی نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے مسودے میں نبوت ﷺ کے حوالے سے قابل اعتراض تبدیلیاں شامل کرنے کا ذمہ دار وزیر قانون زاہد حامد کو قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس، مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ میں ’’ایک اور شخص‘‘ کا ذکر کیا ہے جس نے پارلیمانی کمیٹی کی سطح پر یہ مسودہ تحریر کیا تھا۔

رپورٹ میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ’’یہ لوگ کون تھے‘‘ لیکن صرف ایک شخص کا ذکر کیا گیا ہے جس نے یہ مسودہ تیار کیا تھا۔ اگرچہ تحقیقاتی کمیٹی نے ’’ذمہ دار کیخلاف کارروائی‘‘ کی سفارش کی تھی لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس میں کہیں کوئی سازش تو نہیں تھی۔

راجہ ظفر الحق کی زیر قیادت تحقیقاتی کمیٹی کی بنیاد پر یہ معلوم کرنے کیلئے مزید تحقیقات کی ضرورت ہوگی کہ یہ قابل اعتراض تبدیلیاں غلطی سے قانون میں شامل ہوئیں تھیں یا کسی سازش کے تحت انہیں شامل کیا گیا تھا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ نواز شریف کو اُس وقت پیش کی گئی جب وہ لندن میں تھے۔

نواز لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر نواز شریف رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیئے جانے والے شخص کو عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ تھوڑا انتظار کیا جائے کیونکہ اس طرح کی کارروائی کے نتیجے میں اُس شخص کی سلامتی اور زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ عمومی تاثر اور سوشل میڈیا پر موجود غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ وزیر قانون نے مبینہ طور پر یہ متنازع تبدیلیاں تحریر کی تھیں۔ تاہم، تحقیقاتی کمیٹی نے کسی اور شخص کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

باخبر ذرائع نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر قانون پارلیمانی کمیٹی میں مسودے میں موجود سنگین غلطی کو پکڑنے میں ناکام ہوگئے تھے اور مسودہ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کے روبرو وزیر قانون نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ دیکھنا ان کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ مسودے میں کہیں کوئی متنازع چیز تو شامل نہیں کی گئی لیکن قانونی فراست، تجربہ اور قانونی زبان پر مہارت ہونے کے باوجود وہ اپنے فرائض انجام نہ کر پائے۔

ایک نون لیگی، جسے اس تنازع کے حوالے سے باتوں کا علم ہے، کا کہنا ہے کہ وزیر قانون کو غلط انداز سے متنازع تبدیلی شامل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ صرف متنازع تبدیلی کو تلاش کرنے میں ناکام رہے اور مسودہ ایسے ہی پارلیمانی کمیٹی میں پیش کر دیا۔

راجہ ظفر الحق نے بھی رپورٹ میں بتایا ہے کہ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی جانب سے یہ مسودہ ایوانِ بالا میں پیش کیے جانے کے بعد ہی سینیٹر حافظ حمد اللہ کی جانب سے حلف نامے کی زبان میں تبدیلی پر اعتراض اٹھایا گیا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ حلف نامے کو اپنی اصل شکل میں بحال کیا جائے۔

راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایوان میں کھڑے ہو کر سینیٹر حمد اللہ کی ترمیم کی حمایت کی۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر قانون نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ حافظ حمد اللہ کی پیش کردہ ترمیم کے خلاف نہیں ہیں۔ راجہ ظفر الحق نے رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ نواز لیگ نے بھی سینیٹ میں حافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمایت کی۔

رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ سینیٹ میں قانون منظور ہونے کے بعد اور اس کے بعد یہ قانون قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ انہوں نے غلطی کر دی ہے جسے درست کرنا ضروری ہے لیکن اپوزیشن کی جانب سے سیکشن 203؍ پر شور شرابہ کیا تو یہ بل ترمیمی حالت میں منظور کر لیا گیا۔

 تحقیقاتی کمیٹی کی قیادت سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کی جب کہ دیگر ارکان نے سینیٹر مشاہد اللہ خان اور احسن اقبال شامل تھے۔ تاہم، رپورٹ پر احسن اقبال کے علاوہ باقی دو نے دستخط کیے کیونکہ وہ شہر سے باہر تھے اسلئے کمیٹی کی کارروائی میں حصہ نہ لے سکے۔ رپورٹ میں مولانا فضل الرحمان کا بیان بھی شامل ہے کہ بنیادی طور پر ہم سب ارکان پارلیمنٹ حلف نامے پر بحث کے دوران اپنے فرائض انجام نہ دینے کے ذمہ دار ہیں۔

یہ رپورٹ 18 نومبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :