20 نومبر ، 2017
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدالتی حکم کے باوجود فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت کا دھرنا ختم نہ کرائے جانے پر انتظامیہ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد میں جاری دھرنے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور سیکرٹری داخلہ کو طلب کیا۔
عدالت کی جانب سے طلبی پر وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو فاضل جج نے سوال کیا کہ عدالتی احکامات پر عمل کیوں نہیں ہوسکا۔
اس موقع پر احسن اقبال نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیا جارہا ہے تاہم طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کے لئے 48 گھنٹے کی مہلت کی استدعا کی اور کہا کہ خدشہ ہے کہ تمام معاملات آئندہ انتخابات کے لیے ہو رہے ہیں، ہمیں 2 روز کی مہلت دی جائے۔
جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالتی احکامات کی نافرمانی کے بعد مزید وقت نہیں مانگا جاسکتا، آپ اس معاملے میں بے بس ہیں۔
اس پر وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ 'اسلام آباد انتظامیہ میرے زیرنگرانی ہے اور میں نے ہی انتظامیہ سے کہا کہ پرامن طریقے سے حل نکالنا ہے جس کی ذمے داری قبول کرتا ہوں'۔
جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ بطور جج لاکھوں لوگوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہوں، دھرنے والے اتنی اہم جگہ تک کیسے پہنچے، یہ سمجھ سے بالا تر ہے، غرض نہیں دھرنے والے سیاسی، سیکولر یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، عدالت کو صرف غرض ہے کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے۔
جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ ناموس رسالتﷺ پوری اُمت کا مسئلہ ہے جس پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا لیکن یہ کسی ایک گروہ کا مسئلہ نہیں، یہ محض مذہبی جماعت نہیں سیاسی پارٹی بھی ہے جو الیکشن میں حصہ لے چکی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے مزید کہا کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی دھمکی پر عدالت نے بہت محنت سے چند حدود متعین کیں تھیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، عدالت جو حدود متعین کرچکی ہے اس پر عمل کیا جائے۔
فاضل جج نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی سے کسی کو نہیں روکیں گے، یہ ان کا آئینی حق ہے تاہم دھرنا دینے والوں کو احتجاج کے لیے مختص جگہ پر بھیجا جائے۔
عدالت نے سماعت جمعرات 23 نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد، چیف کمشنر اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کردیے۔
اس سے قبل سماعت کے دوران فاضل جج نے عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل کیوں نہیں ہوا، جس پر ابھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔
اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ سیاسی قیادت مظاہرین سے خود مذاکرات کر رہی ہے جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ 4 سے 5 ہزار افراد تمام شہریوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں اور وہ کیا مطالبہ لے کر بیٹھے ہیں اس سے متعلق سوچنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام نہیں، اصل مسئلہ صرف امن و امان کا ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے ریمارکس دیے کہ لاکھوں افراد کے حقوق سلب ہونے نہیں دیں گے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کچھ ایسی باتیں ہیں جو کھلی عدالت میں نہیں بتائی جاسکتیں جس پر فاضل جج نے کہا کہ آپ نے جو کچھ کہنا ہے اوپن کورٹ میں کہیں، آپ کو یہی کہنا ہوگا کہ مظاہرین کے پاس ہتھیار ہیں اور پتھر بھی جمع کر رکھے ہیں۔