20 نومبر ، 2017
اسلام آباد: فیض آباد انٹرچینج پر گزشتہ 15 روز سے جاری دھرنا ختم کرانے کے لئے حکومت اور دھرنا کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں کوئی مثبت پیش رفت نہ ہوسکی۔
پنجاب ہاؤس میں ڈھائی گھنٹے تک بات چیت کا سلسلہ جاری رہا تاہم کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلا اور دھرنا ختم کرنے کے معاملے پر اب بھی حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
اسلام آباد کے پنجاب ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد، مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما راجا ظفر الحق، وزیر قانون پنجاب راجا ثنااللہ، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، چیف سیکریٹری پنجاب،آئی جی پنجاب اور کمشنر راولپنڈی بھی شریک تھے۔
مذاکرات کے لئے دھرنا کمیٹی کے وفد میں اظہر حسین رضوی، شفیق امینی، پیر عنایت الحق شاہ اور وحید نور بھی پنجاب ہاؤس میں موجود تھے۔
مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’’ہم نے ایک ایک چیز کی وضاحت کردی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل نکلے، جو وضاحت ممکن تھی وہ کی گئی ہے، زاہد حامد نے آئین اور قانون کی روشنی میں وضاحت کی‘‘۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ لوگوں کو تکلیف ہے راستہ کھول دیا جائے،عدالتی فیصلوں کا احترام کرنا پڑتا ہے، احتجاجی مظاہرین کے وکیل کی درخواست پرجسٹس شوکت عزیزصدیقی نےنوٹس لے لیا ہے، اس معاملے پر ایک راجہ ظفر الحق کمیٹی کام کررہی ہے اور دوسرا اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چل رہاہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ بات چیت سےحل ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دارالحکومت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جائے، حکومت بالکل نہیں چاہتی کہ طاقت کا استعمال کیا جائے‘‘۔
سعد رفیق نے دھرنے والوں سے اپیل کی کہ لاکھوں شہریوں کے حقوق کا خیال کریں، عدالتی فیصلہ کسی کو اچھالگے یا برا عمل تو کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ دھرنا وفد نے جو معاملات اٹھائے ایک ایک کرکے دلیل کے ساتھ جواب دے دیا، زاہد حامد کی کوشش سے آرٹیکل سیون بی اور سیون سی ہمیشہ کے لیے آئین کا حصہ بن گئے اور اس سے قبل سیون بی اور سیون سی مردہ قانون تھا۔
فیض آباد میں 15 روز سے جاری دھرنے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے عوام کا نظام زندگی بری طرح متاثر ہواہے۔
فیض آباد انٹرچینج بند ہونے سے جڑواں شہروں میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے جس سے شہریوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑرہا ہے جب کہ دھرنے کی وجہ سے سڑکیں بلاک ہونے سے روزانہ کئی ایمبولینسز بھی ٹریفک میں پھنس رہی ہیں۔
دھرنے کے مقام پر پولیس، رینجرز اور ایف سی اہلکار الرٹ ہیں جب کہ بکتر بند گاڑیاں، قیدیوں کو لے جانے والی گاڑیاں اور ایمبولنسز بھی موجود ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے حکومت کو گزشتہ روز دھرنا ختم کرانے کا حکم دیا گیا تھا تاہم وفاقی وزیر داخلہ کی ہدایت پر سیکیورٹی فورسز کو کسی بھی ایکشن سے روک دیا گیا اور حکومت اس معاملے پر مذاکرات کو ترجیح دے رہی ہے۔
دھرنے کی قیادت وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر بضد ہے جب کہ حکومت کا مؤقف ہے کہ ختم نبوت کا قانون بحال کیا جاچکا ہے جس کےبعد دھرنا بلا جواز ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہےکہ دھرنے والوں پر طاقت کے استعمال سے خونریزی کا خدشہ ہے، ہم نہیں چاہتے کوئی کشیدگی پیدا ہو۔
انہوں نے ایک بارپھر دھرنے والوں سے دھرنا ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی کے شایان شان نہیں کہ ہم شہریوں کے راستوں میں کانٹیں بکھیریں، مریض دم توڑ رہے ہیں بچے اسکول نہیں جارہے، دھرنے والوں سے اپیل کرتے ہیں، اس وقت ملک کے حالات کسی تصادم کی اجازت نہیں دیتے، ہمیں خون خرابہ نہیں کرنا چاہیے لہٰذا ربیع الاول کے تقدس کے لیے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کریں۔
دوسری جانب دھرنے کی قیادت کرنے والے علامہ خادم رضوی کا گزشتہ روز کہنا تھا ہے کہ ابھی تک ہم سے مذاکرات نہیں مذاق کیا گیا، وزیر قانون زاہد حامد کااستعفیٰ پہلے ہوگا اور مطالبات پورے ہونے تک دھرنا ختم نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر زاہد حامد قصوروار نہیں تو اصل مجرم کو سامنے لایا جائے۔
ترجمان دھرنا کمیٹی کا مؤقف ہے کہ وزیر قانون زاہد حامد اگر بے گناہ ہیں تو دوبارہ وزیر بن سکتے ہیں، زاہد حامد کے استعفے کے بعد دیگر مطالبات حکومت کے سامنے رکھیں گے جب کہ حکومت اور ان کے درمیان معاملات تحریری طور پر ہوں گے۔
اس سے قبل دھرنا ختم کرانے کے لیے پیر آف گولڑہ شریف غلام نظام الدین جامی کی ثالثی میں حکومت اور مظاہرین کے درمیان مذاکرات ہوئے لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ سامنے نہ آسکا۔