دنیا
Time 06 دسمبر ، 2017

امریکا نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیا


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا۔

وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے سے متعلق فیصلے کو کافی مخالفت کا سامنا رہا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے دو دہائیوں تک اس اقدام سے گریز کیا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے درمیان پائیدار امن کے کوئی آثار نظر نہیں آئے لہٰذا اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرلیں گے اور اپنے خطاب میں انہوں نے اپنے اس وعدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’آج میں اپنا وعدہ پورا کررہا ہوں‘‘۔

محکمہ خارجہ سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کی تیاری کرے

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’میں نے یہ فیصلہ امریکا کے بہترین مفاد اور اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن کی جستجو کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن عمل میں پیش رفت کے لیے یہ اقدام کافی عرصے سے تاخیر کا شکار تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں امریکی محکمہ خارجہ کو ہدایات جاری کیں کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کرے۔

خیال رہے کہ ابھی تک مقبوضہ بیت المقدس میں کسی بھی ملک کا سفارتخانہ موجود نہیں ہے اور زیادہ تر ممالک تل ابیب کو ہی اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔

مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے باضابطہ اعلان سے قبل کابینہ اجلاس میں اپنے بیان میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ یروشلم کے حوالے سے امریکی پالیسی میں تبدیلی کافی عرصے سے تاخیر کا شکار تھی۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا کے متعدد صدور نے ماضی میں کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا، انہوں نے ایسا ہمت نہ ہونے کی وجہ سے کیا یا کسی اور وجہ سے اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ 

ٹرمپ نے تاریخی فیصلہ کیا، اسرائیلی وزیراعظم

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔

بن یامین نیتن یاہو نے اس فیصلے سے یروشلم کے مذہبی مقامات کی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونے کا اعادہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ کسی بھی امن معاہدے میں یروشلم بطور اسرائیلی دارالحکومت شامل ہوگا اور دوسرے ممالک بھی امریکا کی طرح اپنے سفارتخانے یروشلم منتقل کریں۔

خیال رہے کہ قبلہ اول اور مسجد اقصیٰ یروشلم میں ہی ہیں۔

سرخ لکیر

پاکستان،سعودی عرب، فلسطین، اردن، مراکش،ترکی، مصر اور عرب لیگ کے علاوہ یورپی یونین اور امریکی محکمہ خارجہ کے کئی عہدیداروں نے سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کی مخالفت کی ہے۔

متعدد عرب اور مسلم ممالک نے متوقع فیصلے کی مخالفت کی تھی، سعودی فرماں روا شاہ سلمان کا صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک اقدام ہوگا جس سے دنیا بھر میں اشتعال پھیلے گا۔

عراق کے وزیراعظم حیدرالعبادی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکی فیصلے سے مشرق وسطیٰ کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

فلسطینی صدر محمود عباس کا امریکی ہم منصب سے ٹیلیفونک گفتگو میں کہنا تھا کہ ایسا کوئی بھی اقدام امن کو ناکام بنائے گا اور خطے کی سلامتی اور تحفظ کے منافی ہوگا۔

فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی اقدام سے خطرات میں اضافہ اور یہ تمام حدود کو پار کرنے کے مترادف ہوگا۔

فلسطین کی درخواست پر عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا جس میں امریکی انتظامیہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ اس قسم کے اقدام سے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔

مصر کے صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی صدر ٹرمپ سے فون پر رابطہ کیا تھا اور کہا کہ اس اقدام کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔

اردن کے شاہ عبداللہ اور صدر ٹرمپ کے درمیان بھی ٹیلی فونک رابطہ ہوا تھا، گفتگو کے دوران شاہ عبداللہ نے امریکی صدر کے اقدام پر مسلمانوں کے مشتعل ہونے کے ممکنہ خطرات سے خبردار کیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس کا مسئلہ نہایت اہم ہے،  بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا نتیجہ انقرہ کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

دوسری جانب فرانس اور جرمنی نے بھی امریکی سفارت خانے کی منتقلی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے،  جرمن وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ معاملہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان طے ہونا چاہئے۔

فرانس کے صدر ایمونیل میکرون پہلے ہی صدر ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوئیتریس نے کہا ہے کہ کسی بھی یکطرفہ اقدام کے نتیجے میں دو قومی ریاست کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ 

بیت المقدس پر اسرائیلی قبضہ

مقبوضہ بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

1948 میں جب برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی تو یروشلم اس کا حصہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ نے علاقے کو فلسطین اور اسرائیل میں تقسیم کرنے کے لیے جو نقشہ بنایا اس میں بھی یروشلم کو بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی سفارش کی تھی۔

مگر فلسطینیوں نے یہ پلان تسلیم نہیں کیا اور اپنے پورے علاقے کی آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھی۔ 1948 کی جنگ میں اسرائیل نے مغربی یروشلم پر قبضہ کر لیا جب کہ مشرقی یروشلم اردن کے کنٹرول میں رہا۔

1967کی جنگ میں اسرائیل نے عربوں کی متحدہ فوج کو شکست دے کر اردن سے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مشرقی یروشلم کا علاقہ بھی چھین لیا۔

اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو اپنا علاقہ قرار دیا تو 1967ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔

1993 کے اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین اور اسرائیل نے ایک دوسرے کا وجود تسلیم کیا،غزہ اور مغربی کنارے پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کی گئی۔

اس معاہدے میں یروشلم کا معاملہ بعد میں طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن نیتن یاہو کی سخت گیر حکومت قائم ہونے کے بعد سے رہے سہے مذاکرات بھی ختم ہو گئے اور اب اسرائیل مشرقی یروشلم کے علاقوں میں بھی یہودی بستیاں قائم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔

ایمبسی ایکٹ

خیال رہے کہ اسرائیل میں موجود امریکی سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے حوالے سے امریکی کانگریس نے 1995 میں قانون پاس کیا تھا جس کے بعد آنے والے ہر امریکی صدر سے اس پر عملدرآمد کرانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔

اب ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی ایکٹ کے تحت مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔

اس ایکٹ کے تحت امریکا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارتخانہ بھی تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا پابند ہے۔

البتہ یہ قانون آج تک نافذ العمل نہیں ہوسکا تھا اور 1995 سے اب تک ہر امریکی صدر قومی سلامتی کے نام پر اس اقدام کو موخر کرتا آیا تھا۔

مقبوضہ بیت المقدس کی خودمختاری کو یقینی بنانے اور اس شہر میں موجود مقدس مقامات کی دیکھ بھال کے حوالے سے متعدد منصوبے بنائے جاچکے ہیں۔

خیال رہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں کئی تاریخی مقامات موجود ہیں جو جنہیں مسلمان، عیسائی اور یہودی سب ہی مقدس سمجھتے ہیں۔

مزید خبریں :